خلیفہ سلیما ن بن عبدالملک نے حضرتِ سیِّدُنا ابوحازم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دریافت کیا: ''اے ابوحازم! ہم موت کو کیوں ناپسند کرتے ہیں؟'' توآپ نے ارشادفرمایا:''اس لئے کہ تم نے دنیا کو آباداور آخرت کوبربادکر دیاہے ،اور تم آبادی سے بربادی کی طرف منتقل ہونے کوناپسند کر تے ہو۔''پھرپوچھنے لگا: ''اے ابوحازم! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سامنے حا ضری کیسے ہو گی؟'' توآپ نے ارشاد فرمایا: ''اے امیرالمؤمنین! نیک آدمی گمشدہ شخص کی طرح ہے جو اپنے گھروالوں کے پاس خوشی خوشی آتا ہے اور گنہگار شخص بھاگے ہوئے غلام کی طرح ہے جواپنے آقا کے پاس خوف زدہ اور غمزَدہ آتاہے۔''
حضرتِ سیِّدُنا ابوسلیمان دارانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرما تے ہیں کہ میں نے عبادت گزار خاتون اُمِّ ہارون رحمۃاللہ تعالیٰ علیہا سے پوچھا: ''کیا آپ مرنا پسندکرتی ہیں؟''توانہوں نے فرمایا: ''نہیں۔'' میں نے پوچھا: ''وہ کیوں؟'' تو کہنے لگیں: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر میں مخلوق کی نافرمانی کروں تواس سے ملنا پسند نہیں کرتی تو خالق عَزَّوَجَلَّ (کی نافرمانی کرکے اُس) سے ملنا کیسے پسند کروں گی۔''
فکر ِ مدینہ کرنے والا خوش نصیب:
حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر کَتَّانِی قُدِّسَ سِرُّہ، الرَّبَّانِی فرماتے ہیں: ''ایک شخص برائیوں اور خطاؤں پر اپنے نفس کا محاسبہ کیاکرتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی زندگی کے سالوں کا حسا ب لگا یا تو سا ٹھ سال بنے پھر دنوں کا حسا ب کیا تو اکیس ہزار پانچ سو دن (21,500) بنے تو اس نے ایک زوردار چیخ ماری اوربے ہو ش ہو کر گر پڑا۔ جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا: ''ہائے افسوس! اگر روزانہ ایک گناہ بھی کیا ہو تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور اکیس ہزار پانچ سوگناہ لے کر حا ضر ہوں گا تو ان گناہو ں کا کیا حال ہوگا جن کا شمار ہی نہیں؟ ہائے افسوس! میں نے اپنی دنیاآباد کی اور آخرت برباد کی اور اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتا رہا، میں دنیا میں تو آبادی سے بربادی کی طرف منتقل ہونا پسند نہیں کرتا تو بروزِقیامت بغیر ثواب وعمل کے حساب وکتاب کیسے دوں گا؟ اور عذاب کا سامنا کیسے کروں گا؟ پھر اس نے ایک زوردار چیخ ماری اورزمین پرگر گیا، جب حرکت دی گئی تو اس کی جان جانِ آفریں کے سپرد ہو چکی تھی۔''