جدا رہنے کا سبب کیاہے؟'' اس نے مجھے دیکھا اور بہت زیادہ رویا پھر اس کارنگ متغیر ہو گیا۔ کچھ اضطراب کے بعد اس پر غشی طاری ہو گئی۔ مجھے گما ن ہوا کہ وہ انتقال کرگیا ہے۔ بہرحال جب اسے ہوش آیا تومیں نے باتوں ہی باتوں میں اسے مانوس کرلیا اور اُسے مخاطب کرکے اس کا دل بہلایااور اُسے قسم دے کر اس کی حا لت کے متعلق دریافت کیا تووہ روتے روتے اپنا واقعہ بیان کرنے لگا: ''میں اپنے شیخ کی خدمت کیا کرتا تھا،وہ ابدال میں سے تھا، میں نے چالیس سا ل اس کی خدمت کی، وہ بہت عبادت گزار تھا۔ اُس نے اپنی وفات سے تین دن قبل مجھے بلاکر کہا: ''اے میرے بیٹے ! اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے! میراتجھ پر اور تیرا مجھ پر حق ہے۔ اور تجھ پر میرے مکمل حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ تومیری باتیں غور سے سنے اور میری وصیت کو پورا کرے۔'' میں نے عرض کی: ''محبت اور عزت سے آپ کی وصیت پوری کروں گا۔'' تو اس نے کہا: ''میری عمر کے تین دن باقی ہیں اورمیں کافر مروں گا۔ جب میں مر جاؤں تو مجھے میرے کپڑوں سمیت رات کی تاریکی میں ایک تابوت میں رکھ کر شہر سے باہر فلاں جگہ لے جا نا اورطلوعِ آفتاب تک وہیں ٹھہرے رہنا، جب تو کسی قافلے کو آتے ہوئے دیکھے کہ جن کے پا س بھی ایک تابوت ہوگاوہ اس کو میرے تابوت کے پہلو میں رکھ دیں گے اور میرا تابوت لے جائیں گے، تم وہ دوسراتابوت لے کر واپس آجانا۔ پھراس تابوت کوکھول کر اس میں موجود شخص کو نکالنا اور اس کے سا تھ وہی سلوک کرنا جو تم پرلازم تھا کہ تم میرے ساتھ کرتے (یعنی اس کی تجہیز وتکفین اورتدفین وغیرہ کرنا)۔''یہ سن کر میں رورو کر پوچھنے لگا: ''ایسا معاملہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟'' توانہوں نے جواب دیا: ''اے میرے بیٹے!یہ سب کچھ لوحِ محفوظ میں لکھا ہواہے، اور پہلے بھی اور بعد میں بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کا حکم ہے۔''