Brailvi Books

حکایتیں اور نصیحتیں
45 - 649
 اس کی عظمت کا واسطہ جو اس مصحف شریف میں ہے، مجھے اس مرض سے نجات عطا فرما۔''

    اللہ عزَّوَجَلَّ نے میری دعاقبول فرمائی اور دوبارہ اس بیماری سے مجھے شفا عطافرمادی۔ لیکن میں پھر اسی طرح نفسانی خواہشات اور نافرمانیوں میں پڑگیا یہا ں تک کہ اب اس مرض میں مبتلا یہاں پڑاہوں، میں نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ اس دفعہ بھی مجھے وسط ِ مکان میں نکال دو جیسا کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب میں مصحف شریف منگوا کر پڑھنے لگا توایک حرف بھی نہ پڑھ سکا۔ میں سمجھ گیا کہ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مجھ پر سخت ناراض ہے، میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر عرض کی: ''یااللہ عزَّوَجَلَّ! اس مصحف شریف کی عظمت کا صدقہ! مجھ سے اس مرض کو زائل فرمادے ۔'' تو میں نے ہاتف ِ غیبی کی آواز سنی مگر اُسے دیکھ نہ سکا۔ یہ آواز اشعار کی صورت میں تھی، جن کا مفہوم یہ ہے:

    ''جب توبیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اپنے گناہوں سے توبہ کرلیتا ہے اور جب تندرست ہوتا ہے تو پھر گناہ کرنے لگ جاتا ہے۔ توجب تک تکلیف میں مبتلا رہتا ہے توروتارہتا ہے اور جب قوت حاصل کر لیتا ہے تو بُرے کام کرنے لگتا ہے۔ کتنی ہی مصیبتوں اور آزمائشوں میں تو مبتلا ہوا مگر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تجھے ان سب سے نجات عطا فرمائی۔ اس کے منع کرنے اور روکنے کے باوجود تو  گناہوں میں مستغرق رہا اور عرصۂ دراز تک اس سے غافل رہا۔ کیا تجھے موت کا خوف نہ تھا؟ تو عقل اور سمجھ رکھنے کے باوجود گناہوں پر ڈٹا رہا۔ اورتجھ پر جو اللہ عزَّوَجَلَّ کا فضل وکرم تھا، توُ نے اسے بھلا دیا اورکبھی بھی تجھ پر نہ کپکپی طاری ہوئی، نہ ہی خوف لاحق ہوا۔ کتنی مرتبہ تو نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ عہد کیا لیکن پھر توڑ دیا، بلکہ ہر بھلی اور اچھی بات کو تو بھول چکا ہے۔ اس جہانِ فانی سے منتقل ہونے سے پہلے پہلے جان لے کہ تمہارا ٹھکانہ قبر ہے، جو ہر لمحہ تجھے موت کی آمد کی خبر سنا رہی ہے۔''

    حضرتِ سیِّدُنا منصور بن عما ر علیہ رحمۃاللہ الغفار فرماتے ہیں: ''اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! میں اس سے اس حال میں جدا ہوا کہ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اورابھی گھر کے دروازے تک بھی نہ پہنچا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ وہ شخص انتقا ل کر چکا ہے۔ ہم اللہ عزَّوَجَلَّ سے حُسنِ خا تمہ کی دعا کرتے ہیں کیونکہ بہت سے روزے دار اور راتوں کو قیام کرنے والے برے خاتمے سے دوچار ہو گئے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہو!
    حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ موصلی علیہ ر حمۃاللہ الغنی فرماتے ہیں: ہمارے زمانے میں ایک غمزدہ شخص تھا، جس کو قَضِیْبُ البَان (یعنی بان نامی درخت کی شاخ) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس کے احترام اور رعب ودبدبے کے باعث کوئی اس سے کلام کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ وہ بہت زیادہ رویا کرتا۔ تقدیر اس شخص کی تنہائی میں مجھے اس کے پاس لے گئی تومیں نے اس سے پوچھا: ''اے میرے محترم! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو اپنی ذات کے سوا ہر چیز سے بے نیاز کر دیا ہے! آپ کے غم اور لوگوں سے
Flag Counter