کااردوترجمہ ہے۔خیرالدین زرکلی کی ''اَلْاَعْلَام'' میں حضرت مصنف علیہ الرحمۃ کے متعلق صرف اتنا ذکر ملتا ہے :نام: شعیب بن عبداللہ بن سعدبن عبدالکافی۔ کنیت:ابومدین۔ عرف:حریفیش،قاہرہ مصرکے صوفیاء سے تھے ،مکہ مکرمہ (زادھااللہ شرفًا وتعظیمًا) میں رہائش اختیارفرمائی ۔انہوں نے ایک کتاب
''اَلرَّوْضُ الْفَائِقْ فِی الْمَوَاعِظِ وَالرَّقَائِق''
اوراوقاف بغدادکے متعلق قصیدہ '
کی شرح لکھی۔۸۱0ھ میں وصال ہوا۔
اور''مُعْجَمُ الْمَؤَلِّفِیْن''میں اس طرح ہے: شعیب بن سعدبن عبدالکافی مصری مکی حریفیشی صوفی،انہوں نے ایک کتاب
''اَلرَّوْضُ الْفَائِقْ فِی الْمَوَاعِظِ وَ الرَّقَائِق''
تصنیف فرمائی اور ''اَلرَّوْضَۃُ النَّضْرَۃُ فِیْ خَصَائِصِ الْعَشَرَۃ''کاتتمہ لکھا۔۸0۱ھ میں انتقال فرمایا۔
(معجم المؤلفین ،ج۱،ص۸۱۵)
حضرت سیِّدُناشعیب حریفیش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی وعظ ونصیحت پرمشتمل پیش نظر کتاب ''اَلرَّوْضُ الْفَائِق''ظاہرکی تطہیر اورباطن کی صفائی کے لئے انتہائی اَہم ہے ۔یہ نادرکتاب 56اصلاحی بیانات پرمشتمل ہے۔جن میں آیات قرآنیہ،احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام واولیاء عظام علیہم الرضوان کے دلوں کوجِلادینے والے فرامین مبارکہ بیان کئے گئے ہیں۔نیزجابجاحضراتِ اَنبیاء کرام علیہم السلام،صحابہ کرام،ائمہ اربعہ اوراولیاء عظام علیہم الرحمۃ والرضوان کے فضائل اوران کے خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے بھرپور اورنصیحت آمیزواقعات وحکایات موجود ہیں۔ مثلاً:حضرت سیِّدُنا ایوب علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کا امتحان،حضرت سیِّدُنا قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت ، تذکرہ ئامامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت سیِّدُناجنیدبغدادی علیہ رحمۃاللہ الہادی کے واقعات وغیرہ اوریہ بات درست ہے کہ جس طرح اللہ عَزَّوَجَل َّکے مقرب بندوں کی زیارت اوران کی خدمت میں حاضری انسان کی ظاہری وباطنی اصلاح کے لئے اِکسیرکادرجہ رکھتی ہے اسی طرح ان بزرگوں کے اقوال واحوال کوپڑھنا اور سننابھی انتہائی مفیدہے۔نیز ان نفوس قدسیہ کاذکرخیرتوعبادت اورکفارہ سیأات کادرجہ رکھتاہے۔جیساکہ ،
حضرت سیِّدُنامعاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی ئپاک،صاحبِ لولاک،سیاح افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمان ذیشان ہے: ''انبیاءِ کرام (علیہم السلام)کاذکرعبادت،صالحین (اولیاءِ کرام)کاذکر(گناہوں کا)کَفَّارہ اورموت کا ذکر صدقہ ہے اورقبرکاذکرتمہیں جنت سے قریب کردے گا۔'' (الجامع الصغیر،الحدیث:۴۳۳۱،ص۲۶۴)