حکایتیں اور نصیحتیں |
(15)۔۔۔۔۔۔ جو کچھ دو سرو ں کو کہیں سب سے پہلے اپنے آپ کو اس کا مخاطب بنائیں ۔(16)۔۔۔۔۔۔ عیش کوشیوں سے اجتناب کرتے رہیں اور اپنی زندگی سادگی کے ساتھ گزاریں ۔ (17)۔۔۔۔۔۔ خوشی ، غمی اور بیماری وغیرہ کے مواقع پر لوگوں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کریں ۔(18)۔۔۔۔۔۔ لوگوں کو ان کی نفسیات کے مطابق محبت بھرے لہجے میں سمجھائیں ۔ (19)۔۔۔۔۔۔ دقیق مضامین اور پیچیدہ مسائل نہ چھیڑیں ۔اللہ ( عَزَّوَجَلَّ ) کا فرمان عالیشان ہے :
''اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ
ترجمہ کنزالایمان : اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے ۔''(پ۱۴،النحل:۱۲۵) (اور) منقول ہے :
کَلِّمُوالنَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ
ترجمہ: لوگو ں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کرو۔'' (اور)حضرت سیدناابو ہریرہ رضی ا للہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : ''میں نے سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے کچھ باتیں ایسی بھی سنی ہیں کہ اگرتمہارے سامنے ظاہرکردوں توتم میراگلاکاٹ دو۔''
(صحیح البخاری ، کتاب العلم،باب حفظ العلم ، الحدیث: ۱۲0، ص ۱۳)
(20)۔۔۔۔۔۔ نیکی کی دعوت دینے کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات ، تکالیف اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے استقبال کریں اور صبر واستقامت کا پہاڑ بن جائیں ۔(چنانچہ) تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا : '' جس پر مصیبت آئے اور صبر کرنا دشوار معلوم ہو وہ میرے مصائب کو یاد کرلے ۔''
(تنبیہ الغافلین،باب الصبر علٰی البلاء والشدۃ ص۱۳۸)
ظاہر ہے جب سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں تکالیف اٹھانا یاد کریں گے ۔ توہمیں اپنی تکالیف اس کے آگے ہیچ نظر آئیں گی۔(21)۔۔۔۔۔۔ احیائے سنت کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھیں ۔ (22)۔۔۔۔۔۔سنتیں سیکھنے او رسکھانے کی پاکیزہ آرزو اور اس راہ میں اخلاص وایثار کا جذبہ اپنے اندر بیدار رکھیں (23)۔۔۔۔۔۔ عامی مبلغین کو چاہے کہ وہ بحث ومباحثہ (جدل ومناظرہ)میں نہ پڑیں بلکہ ایسے موقع پر علمائے حقہ کی طرف رجوع کریں کہ یہ انہیں حضرات کا شعبہ ہے۔ البتہ ! اپنے عقائد و اعمال میں پختہ ضرور رہیں۔ (24)۔۔۔۔۔۔ اپنے بیان میں ہمیشہ اس امر کا اہتمام رکھیں کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے پایاں رحمت سے امید کی کیفیت بھی طاری رہے اور قہر وغضب کی بھی۔ (25)۔۔۔۔۔۔ اپنے بال بچو ں کی اصلاح بھی کرتے رہیں ۔ (چنانچہ) اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
''یٰاَیُّہَاالَّذِینَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا
ترجمہ کنزالایمان : اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچا ؤ۔ '' (پ۲۸،التحریم:۶) (26)۔۔۔۔۔۔ والدین یا بڑے بہن بھائی اگر خطا کے مرتکب ہوں تو ہرگز ان پر شدت نہ کریں ، نہایت ہی عاجزی اور نرمی کے ساتھ اصلاح کی درخواست کریں ۔ ان سے الجھا نہ کریں ۔ حضورسید ِعالم ،نورِمجسم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بعدخلفاء راشدین ،صحابہ کرام ،اولیاء عظام اورعلمائے ذو الاحتر ام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بھی وعظ ونصیحت کے عمل کو برقراررکھا۔جن کی مسلسل کوششوں سے چمن اسلام کی بہاریں اب بھی قائم ہیں۔چنانچہ، استاذالعلماء حضرت علامہ مولانامحمدمنشاتابش قصوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں:''دنیائے اسلام میں بڑے بڑے عظیم البیان مقررین وواعظین اور خطباء نے اپنی فصاحت وبلاغت اورخدادادتاثیرسے یگانوں اوربیگانوں کواس اندازسے متاثرکیا کہ وہ اسلام اوربانی اسلام صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شیدائی وفدائی بنے۔جنہیں تاریخ نے خوب خوب پذیرائی بخشی اورصفحاتِ دہرمیں ان کانام زندہ وپائندہ ہوگیا۔مگرلسانی مواعظ وتبلیغ کادائرہ ، واعظ وخطیب اورمقررومبلغ کی حیاتِ ظاہری تک محدودرہتاہے۔جب آنکھ بندہوئی ان کے پندونصائح کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔اس کے برعکس ان مبلغین و واعظین ، خطباء اورمقررین کے کارنامے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں جنہوں نے اپنے مواعظ حسنہ کے لئے قلم کو وسیلہ بنایااوراس سلسلہ میں نہایت نکتہ رس،ایمان افروز،روح پروراوردلکش خطبات ومواعظ کوکتابوں کی صورت دی ۔تصانیف کومنصئہ شہودپرجلوہ گرکیااورنہ صرف ان کی حسین حیات سے لوگوں نے استفادہ کیابلکہ صدیاں گزرگئیں،زمانے بِیت گئے،مگران کی قلمی تبلیغ سے اہل علم وعمل ،