یہ حضرات سفر وحَضَر میں رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رہا کرتے تھے، اب جبکہ مجبوراً قافلے سے علیحدہ ہو کر انہیں یہاں پڑاؤ کرنا پڑا تو فِراقِ رسول کے غم میں ان کے دلوں کی حالت زیر وزبر ہونے لگی، ان کا جذبۂ عقیدت اور عشقِ رسول اس بات کی تاب نہ رکھتا تھا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ مدینہ شریف میں داخل ہونے کے شرف سے محروم ہو جائیں، بِالآخِر فرطِ اَلَم سے دِلوں کو ایسی ٹھیس پہنچی کہ جذبات قابو سے باہر ہو گئے اور کسی ٹوٹے ہوئے گھائل شخص کی طرح بارگاہِ الٰہی میں عرض گزار ہوئے: اِنَّكَ لَتَعْلَمُ يَا رَبِّ اِنَّهُ يُعْجِبُنِي اَنْ اَخْرُجَ مَعَ رَسُولِكَ اِذَا خَرَجَ وَاَدْخُلَ مَعَهُ اِذَا دَخَلَ وَقَدِ احْتَـبَسْتُ بِمَا تَرَى اے مالِک، اے پاک پروردگار! تو خوب جانتا ہے کہ مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں تیرے رسول کے ساتھ (مَدِیْنَہ مُنَوَّرَہ سے) نکلوں اور ان کے ساتھ ہی داخِل ہوں اور تجھے معلوم ہے کہ میں کس مجبوری میں پھنس گیا ہوں۔
یہ عرض کرنا تھا کہ وہ کیفیت جاتی رہی جس کی وجہ سے انہیں رُکنا پڑا تھا چنانچہ یہ آگے بڑھ كر قافلے کے ساتھ مل گئے اور سرکارِ ذی وقار، محبوبِ ربِّ غفار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہم راہی میں مدینہ طَیِّبہ کی پُربہار فِضَاؤں میں داخِل ہوئے۔ () گھر پہنچ کر رات کے آخری پہر (جبکہ صبح ہونے کے قریب تھی اس وَقْت) ان کے ہاں مدنی منّے کی وِلادت ہوئی۔ (1) وِلادت کے بعد نیک سیرت بی بی صاحبہ نے اپنے بڑے بیٹے حضرت اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو مُخَاطب کر کے فرمایا کہ اس کا خیال رکھنا، اسے کوئی چیز کِھلائی پلائی نہ جائے، جب صبح ہو تو اسے لے
________________________________
1 - مسلم، كتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل ابى طلحة، ص٩٥٧، حديث:٢١٤٤.
2 - معجم كبير، باب من يعرف من النساء بالكنى الخ، خبر ام سليم فى موت ابنها الخ، ١٠ / ٤٥٧، حديث:٢٠٧٩٦.