rآخر ایسا کیوں ہوا؟(یعنی سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اعلان کی کیا حکمت ہے؟) نوجوان نے حاضر ہو کر جب پوچھا توحضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ میں نے حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے یہ سنا ہے:’’ جس قوم میں قاطِعِ رِحم(یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو، اُس قوم پر اللہ کی رَحمت کا نزول نہیں ہوتا۔‘‘ (اَلزَّواجِرُ عَنِ اقْتِرافِ الْکبائِر ج۲ ص۱۵۳)
ساس بَہُو میں صُلح کا راز
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے!پہلے کے مسلمان کس قَدَرخوفِ خدا رکھنے والے ہُوا کرتے تھے! خوش نصیب نوجوان نےاللہ عَزَّوَجَلَّکے ڈر کے سبب فوراًاپنی پھوپھی کے پا س خود حاضِر ہو کر صلح(صُل۔ح) کی ترکیب کر لی۔ سبھی کو چاہئے کہ غور کریں کہ خاندان میں کس کس سے اَن بن ہے جب معلوم ہو جائے تو اب اگر شَرعی عذر نہ ہو تو فوراً ناراض رشتے داروںسے’’ صلح و صفائی‘‘کی ترکیب شروع کر دیں ۔ اگرجھکنا بھی پڑے تو بے شک رِضائے الٰہی کیلئے جُھک جائیں ، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سر بلندی پائیں گے۔ فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہ۔ یعنی ’’جو اللہ عَزَّوَجَلَّکیلئے عاجزی کرتا ہے اللہ تَعَالٰیاُسے بلندی عطا فرماتا ہے۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج ۶ ص ۲۷۶ حدیث ۸۱۴۰) اپنے گھروں اور معاشرے (مُ۔عَا۔شَ۔رے) کو اَمن کا گہوارہ بنانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے مشکبار مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوجائیے اور ہر ماہ کم از کم تین دن کیلئے مَدَنی قافِلے میں سنّتوں بھرا سفر کیجئے نیز مَدَنی اِنعامات کے مطابِق زندَگی گزاریئے۔آپ کی ترغیب وتحریص