کے علاوہ سب کی مغفِرت فرما دیتا ہے۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر لِلطّبَرانی ج۱ص۱۶۷حدیث۴۰۹ )
امانت اور صلۂ رِحمی کی شکایت پر پکڑ ہو گی
فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہے:’’امانت اور صِلۂ رِحمی کو بھیجا جائے گا تووہ پل صراط کے دائیں اور بائیں جانب کھڑی ہو جائیں گی۔‘‘(مُسلِم ص۱۲۷حدیث۳۲۹) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یہ ان دونوں وصفوں کی انتہائی تعظیم ہوگی کہ ان دونوں کو پل صراط کے آس پاس کھڑا کیا جاوے گا شفاعت اور شکایت کے لیے، کہ ان کی شفاعت پرنجات ،ان کی شکایت پر پکڑ ہوگی۔ اس فرمان عالی سے معلوم ہوا کہ انسان امانت داری اور رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی ضرور اختیار کرے کہ ان دونوں میں کوتاہی کرنے پر سخت پکڑ ہے مگر ان کی شفاعت پر دوزخ سے نجات ہے ان کی شکایت پر وہاں گرتا ہے۔
(مراٰۃ المناجیح ج ۷ص۴۲۴)
تعلّقات توڑنے کی سزا(حکایت)
حضرتِ سیِّدُنا فقیہابواللَّیث سمرقندیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی’’ تَنبیہُ الغافِلین‘‘ میں نقل کرتے ہیں،حضرت سیِّدنا یحییٰ بن سُلَیم رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: مکّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیں ایک نیک شخص خراسان کا رہنے والا تھا، لوگ اس کے پاس اپنی اَمانتیں رکھتے تھے، ایک شخص اس کے پاس دس ہزاراشرفیاں اَمانت رکھوا کر اپنی کسی ضَرورت سے سفر میں چلا گیا،جب وہ واپس آیاتو خراسانی فوت ہوچکا تھا، اس کے اہل وعیال سے اپنی