رشتے داروں کو تقسیم کر دی۔
(اسد الغابۃ ج۷ص۱۴۰ مُلَخّصاً)
رشتے داروں سے تعلّق توڑنے سے بچئے
قراٰنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَؕ- (پ۴،اَلنّساء:۱)
ترجَمۂ کنز الایمان: اوراللہسے ڈرو، جس کے نام پر مانگتے ہو اور رِشتوں کا لحاظ رکھو ۔
اس آیت ِ مبارَکہ کے تحت’’ تفسیرمظہری ‘‘میں ہے: یعنی تم قطع رحمی (یعنی رشتے داروں سے تعلق توڑنے) سے بچو۔ (تفسیرِمظہری ج۲ ص۳)
جان بوجھ کرقطع ِرِحمی کو جائز سمجھنا کُفر ہے
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:رِشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔ ( بُخاری ج۴ ص۹۷ حدیث۵۹۸۴) حضرت علامہعلی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص بغیر کسی سبب اور بغیر کسی شبہے اورقطع رحمی کے حرام ہونے کے علم کے باوجود اسے حلال اور جائز سمجھتا ہووہ کافرہے ،ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جنت میں نہیں جائے گا ، یا یہ مراد ہے کہ پہلے جانے والوں کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا یا یہ مراد ہے کہ عذاب سے نجات پانے والوں کے ساتھ بھی نہیں جائے گا(یعنی پہلے سزا پائے گا پھر جائے گا )۔
(مِرقاۃ ج۷ تحت الحدیث۴۹۲۲)
’’تفہیم البخاری‘‘ میں ہے:اس میں اختلا ف نہیں کہ صِلَۂ رحمی واجب ہے اور اس