یہ امتحان ہے جن لوگوں نے نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی شان اقدس میں گستاخیاں اور بے ادبیاں کی ہیں ان سے اپناتعلق قطع کرلیں ایسے لوگوں سے نفرت اور بیزاری ظاہر کریں اگر چہ وہ ماں باپ اوراولاد ہی کیوں نہ ہوں ۔بڑے سے بڑے مولانا پیر و استاد ہی کیوں نہ ہوں لیکن جب اُنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں بے ادبی کی توایمان والے کا ان سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔اگر کوئی شخص ان کی بے ادبیوں پر مطلع ہوجانے کے بعد پھربھی ان کی عزّت ان کااحترام کرے اور اپنی رشتہ داری یا انکی شخصیت اور مولویت کے لحاظ سے نفرت وبیزاری ظاہر نہ کرے وہ شخص اس امتحان میں ناکامیاب ہے اس شخص کو حقیقتاً حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت نہیں صرف زبانی دعوی ہے اگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت اور آپ کی سچی عظمت ہوتی تو ایسے لوگوں کی عزت وعظمت ،ان سے میل و محبت کے کیامعنی ؟خوب یادر کھو پیر اور استاد ،مولوی اورعالم کی جوعزت و وقعت کی جاتی ہے اس کی محض یہی وجہ ہے کہ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے تعلق اورنسبت رکھنے والا ہے مگر جب اس نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کی پھر اس کی کیسی عزت ؟ اور اس سے کیسا تعلق اس نے توخود حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اپنا تعلق قطع کرلیا پھر مسلمان اس سے اپناتعلق کیونکر باقی رکھے گا ۔
اے مسلمان تیرا فرض ہے کہ اپنے آقا و مولامحبوب خد اصلی اﷲتعالی علیہ وسلم کی عزّت و عظمت پر مرمٹے ان کی محبت میں اپناجا ن ومال عزّت وآبروقربان کرنے کو اپنا ایمانی فرض سمجھے اور ان کے چاہنے والوں سے محبّت ان کے دشمنوں سے عداوت لازمی اور ضروری جانے ۔غور کر کسی کے باپ کوگالی دیجائے اور بیٹے کو سن کر حرارت نہ آئے(۱) تو وہ صحیح معنی میں اپنے باپ کا بیٹا نہیں اسی طرح اگر نبی کی شان میں گستاخی ہو اورامتی سُن کر خاموش