حُسْن جَوبَن پر ہے ،ہر طرف عَجب خوش رنگ پھول کھلے ہیں جن سے ٹکرا کر آتی خُنک(ٹھنڈی)ہوا کے جھَونکے مَشامِ جاں کو مُعطَّر کررہے ہیں،رنگ برنگے پرندوں کی چہچہاہٹ مَنظر میں مزید رنگ بھر رہی ہے، وہ جنگل کے ان حسین نَظّاروں میں کچھ اس طرح کھوگیا کہ اسے جنگل کی وحشت کا احساس رہا نہ جنگلی درندوں کا کوئی ڈر۔ وہ شخص ان خوبصورت مَناظِر کی دِل کشی و رَعنائی سے لُطْف اَندوز ہوتے ہوئے جنگل میں چلتا جا رہا تھا کہ دفعتاً اسے اپنے پیچھے کچھ آہٹ محسوس ہوئی، مُڑ کر جو دیکھا تو گھات لگائے ایک خوفناک شیر نظر آیا ،شیر کو دیکھ کر گویا اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور وہ گھبرا کر بھاگ کھڑا ہوا مگر شیر بھی آخر شیر تھا، اپنے شِکار کا کہاں پیچھا چھوڑنے والا تھا،وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیا گویا کہ اسے جان بوجھ کر بھاگنے کا موقع دے رہا ہو کہ آخر مجھ سے بچ کر کہاں جاؤ گے؟ بھاگ لو جہاں تک بھاگنا ہے۔ وہ شخص شیر سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں اندھا دھند بھاگے چلا جا رہا تھا کہ اتنے میں ایک گہرا گڑھا آڑے آگیا،اس نے گڑھے میں جھانک کر دیکھا تو اندر ایک بَہُت بڑا سانپ منہ کھولے بیٹھا نظر آیا!اب تو یہ مزید ڈرا کہ کرے تو کیا کرے! پیچھے خوفناک شیر ہے تو آگے گڑھے میں خطرناک سانپ۔۔!
ابھی اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اُسے ایک بَہُت بڑا درخت نظر آیا جس کی بَہُت سی مضبوط شاخیں زمین پر لٹک رہی تھیں،جان بچانے کی خاطِر اس کے ذہن