میں درخت پر چڑھنے کا خیال آیا تو فوراً ایک شاخ پکڑ کر اس پر چڑھ بیٹھا گویا یہ شاخ اس کے لئے حیات ِنو (نئی زِنْدَگی)کا پیغام ثابت ہوئی۔ ابھی اس نے شیر اور سانپ سے جان بچ جانے کی خوشی میں سانس بھی نہ لیا تھا کہ اسے محسوس ہوا جس شاخ پر وہ بیٹھا ہے کوئی اسے کُتَرْنے کی کوشِش کر رہا ہے، غور سے دیکھنے پر اسے معلوم ہوا کہ جس شاخ پر وہ جان بچانے کی غرض سے بیٹھا تھا،چوہے نُما دو چھوٹے چھوٹے جانور مِل کر اُسے کُتَرْنے کی کوشِش کر رہے ہیں، ان جانوروں میں سے ایک دِن کی روشنی کی مانند سفید اور دوسرا رات کی تاریکی کی طرح سیاہ تھا،ان دونوں جانوروں کو چوہوں کی طرح حقیر جانتے ہوئے کہ بھلا ان کی کیا اوقات کہ اتنی مضبوط شاخ کو کاٹ سکیں، اس نے کوئی پروا نہ کی بلکہ جان بچ جانے پر سکھ کا سانس لیا، مگر یہ دیکھ کر کہ شیر بھی اِسی شاخ تلے آبیٹھا ہے وہ کچھ ضَرور پریشان ہوا لیکن یہ سوچ کر کہ وہ شیر کی پہنچ سے دور ہے اور وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مطمئن ہو گیا۔ اتنے میں اس کی نظر پاس ہی شہد سے بھرے ایک چھتے پر پڑی، شہد دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا اور تمام خطرات کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے وہ خود کو شہد کی مٹھاس سے زیادہ دیر تک دور نہ رکھ پایا اور آخر کسی ترکیب سے شہد حاصِل کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔وہ شخص شہد کی لذّت میں کچھ ایسا کھویاکہ اسے نہ تو شاخ کُتَرْنے والے چوہے نما جانوروں کا خیال رہا اور نہ ہی نیچے موجود شیر کا۔ مگر