پر دو طرح کے ہوتے ہیں جنہیں ہم گناہِ صغیرہ اور گناہِ کبیرہ کے ناموں سے جانتے ہیں۔ صغیرہ گناہ مختلف نیکی کے کام کرنے مثلاً نماز، روزہ اور حج وغیرہ کی ادائیگی سے مُعاف ہو جاتے ہیں اور یہ عبادات ان گناہوں کے لیے کَفَّارہ بن جاتی ہیں۔ چنانچہ حضرتِ سَیِّدُنا ابُوہُریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مَروی ہے کہ حضور پُر نور، شافِعِ یومُ النُّشُور صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ پُر سُرور ہے:پانچوں نَمازیں اور جُمُعہ اگلے جُمُعہ تک اور ماہِ رَمَضان اگلے ماہِ رَمَضان تک (ہونے والے)گناہوں کا کَفّارہ ہیں جبکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔(1)
کبیرہ گناہوں کی دو صورتیں ہیں:اگر ان کا تعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حقوق سے ہو تو سچی توبہ کرنے سے معاف ہو جاتے ہیں اور اگر ان کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو تو حق کی ادائیگی یا صاحبِ حق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ چنانچہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مَغْفِرَت نِشان ہے:نامۂ اعمال تین ہیں:
دِيوَانٌ لَا يَغْفِرُهُ اللهُ:اَلْاِشْرَاكُ بِاللهِ۔يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ:اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنۡ یُّشْرَکَ بِہٖ۔ ایک نامۂ عمل کو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نہیں بخشے گا یعنی وہ نامۂ عمل جس میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا درج ہو گا۔ جیسا
(1) مسِلم، کتاب الطهارة، باب الصلوات الخمس .. الخ، ص ۱۴۴، حدیث:۲۳۳