رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما کا ایک فرمان کچھ یوں نقل فرماتے ہیں:اے گناہ گار! تُو گناہ کے انجامِ بد سے کیوں بے خوف ہے؟ حالانکہ گناہ کی طلب میں رہنا گناہ کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے، تیرا دائیں ،بائیں جانب کے فرشتوں سے حَیانہ کرنا اور گناہ پرقائم رہنا بھی بہت بڑا گناہ ہے یعنی توبہ کئے بغیر تیرا گناہ پر قائم رہنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے، تیرا گناہ کرلینے پر خوش ہونا اور قہقہہ لگانا اس سے بھی بڑا گناہ ہے حالانکہ تُو نہیں جانتا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تیرے ساتھ کیا سلوک فرمانے والا ہے؟ اور تیرا گناہ میں ناکامی پر غمگین ہونا اس سے بھی بڑاگناہ ہے۔ گناہ کرتے ہوئے تیز ہوا سے دروازے کا پردہ اٹھ جائے توتُو ڈر جاتا ہے مگر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اس نظر سے نہیں ڈرتا جو وہ تجھ پر رکھتا ہے تیرا یہ عمل اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔(1)
بنی اسرائیل پر مختلف عذابوں کا سبب
مروی ہے کہ جب حضرت سَیِّدُنا حذیفہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے عرض کی گئی: کیا بنی اسرائیل نے اپنا دین چھوڑ دیاتھا جس کی وجہ سے انہیں مختلف قسم کے دردناک عذابوں میں مبتلا کیا گیا مثلاً ان کی صورتیں بگاڑ کر انہیں بندر وخنزیر بنادیا گیا اوراپنے آپ کوقتل کرنے کا حکم دیا گیا؟ تو آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا: نہیں!بلکہ جب انہیں کسی چیز کا حکم دیا جاتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب کسی کام
(1) الزواجر عن اقتراف الکبائر، مقدمة فی تعریف الکبیرة، خاتمة فی التحذیر۔۔الخ، ۱ /۲۷