اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ سے مُراد ہر وہ بات ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تو برا سمجھے کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔(1) اور سَلَف صالحین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ الْمُبِین فرماتے ہیں کہ گناه کفر کے قاصِد ہیں اس اعتبار سے کہ یہ دل میں سیاہی پیدا کرکے (آہستہ آہستہ)اسے اس طرح ڈھانپ لیتے ہیں کہ پھر اس میں بھلائی قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی، اس وقت وہ سخت ہوجاتا ہے اور اس سے رحمت ومہربانی اور خوف نکل جاتا ہے، پھروہ شخص جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے اور جسے پسند کرتا ہے اس پر عَمَل کرتا ہے، نیز اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مُقابَلہ میں شیطان کو اپنا دوست بنا لیتا ہے تو وہ شیطان اسے گمراہ کرتا، ورغلاتا، جھوٹی اُمّیدیں دِلاتا اور جس قدر ممکن ہو کفر سے کم کسی بات پر اس سے راضی نہیں ہوتا۔(2)
کس کی خوشی چاہئے رحمٰن عَزَّ وَجَلَّ کی یا شیطان کی ؟
پیارے اسلامی بھائیو!نیکی یا گناہ کے دونوں راستے آپ کے سامنے ہیں، اب فیصلہ آپ نے خود ہی کرنا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں فرمانبرداری
امام نووی نے حضرت وابصہ ابن معید اسدی سے روایت کی کہ میں نے حضور صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دریافت کیا کہ نیکی اور گناہ کیا ہوتے ہیں؟ فرمایا: اپنے دل سے فتویٰ لیا کرو، جسے تمہارا دل نیکی کہے وہ نیکی ہے جسے تمہارا دل گناہ کہے وہ گناہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، ۶/ ۶۳۹)
(1) مسلم،کتاب البر...الخ،باب تفسیرالبر والاثم، ص۱۳۸۲، حدیث:۲۵۵۳
(2) الزواجر عن اقتراف الکبائر، مقدمة فی تعریف الکبیرة، خاتمة فی التحذیر۔۔الخ، ۱/۲۸