اعمال کی جوابدہی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!ہمیں یہ زندگی کھیل کود اور تفریح کے لئے نہیں بلکہ ایسے کام کرنے کیلئے دی گئی ہے جن کی بجاآوری سے رِضائے رَبُّ الاَنام حاصِل ہو۔چنانچہ،
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اِنَّ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ وَاِنَّ اللّٰهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ۔ بے شک دنیا سر سبز و شاداب اور شیریں ہے اور یقیناً اللہ عَزَّ وَجَلَّ تم کواس میں اپناخلیفہ بنانے والا ہے تاکہ وہ یہ دیکھ سکے کہ تم اس میں کیسے اعمال بجا لاتے ہو۔ (1)
پس یاد رکھئے!موت کےبعدہرشخص اپنی کرنی کا پھل پائے گا، اگر دنیا میں اچھے اعمال کئے ہوں گے تو اس کی جزا پائے گا اور اگر خدانخواستہ نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر زِنْدَگی گناہوں میں بسر کی تو جہنّم کی سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
فَمَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾ ترجمۂ کنزالایمان:تو جو ایک ذرّہ بھر بھلائی کرے اسے دیکھے گا
وَ مَنۡ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾ اور جو ایک ذرّہ بھر بُرائی کرے اسے دیکھے گا۔
(پ۳۰،الزلزال:۷، ۸)
(1) ابن ماجه، کتاب الفتن، باب فتنة النساء، ۴/ ۳۵۷، حدیث: ۴۰۰۰