ہولناک گڑھا راستے میں حائل ہے جس میں ان کی بداعمالیاں ”سانپوں“ کی شکل میں منہ کھولے انہیں نگلنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے کسی درخت کی شاخ ہاتھ آجانے سے ”زِنْدَگی“ کی کچھ سانسیں بڑھ جاتی ہیں تو یہ گمان کر کے کہ شاید انہوں نے موت اور قبر سے پیچھا چھڑا لیا ہے سکھ کا سانس لیتے ہیں اور اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ انکی زِنْدَگی کی شاخ کو دو ننھے جانور ”دن، رات“ کی شکل میں آہستہ آہستہ کُتَررہے ہیں اور بس کسی آن ان کی زِنْدَگی کی یہ شاخ کٹنے ہی والی ہے، بلکہ شہد کی صورت میں میٹھی دکھائی دینے والی ”دنیاوی لذتوں“ میں وہ اس قدر کھو جاتے ہیں کہ موت کا ڈر تک باقی نہیں رہتا۔ مگر جب رات دن آہستہ آہستہ ان کی زِنْدَگی کی شاخ کو کاٹ دیتے ہیں اور انہیں یکدم شاخ کے چٹخنے یعنی عالَم نزع میں موت کے فرشتے کی آواز سنائی دیتی ہے تو ان کے اَوسان خطا ہو جاتے ہیں اور وہ ہکے بکے رہ جاتے ہیں، آخر زندگی کی شاخ کٹتی ہے تو موت کا فرشتہ ان کی رُوح قبض کر لیتا ہے اور ان کا جسم جب قبر کے ہولناک گڑھے میں جاتا ہے تو ان کی بداعمالیاں سانپ کی شکل میں آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتی ہیں۔
وہ ہے عَیش وعِشرت کا کوئی مَحل بھی جہاں تاک میں ہر گھڑی ہو اَجَل بھی
بس اب اپنے اس جہل سے تُو نکل بھی یہ جینے کا انداز اپنا بدل بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عِبْرَت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے