حضرات نے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے رسالے بانٹنے شُروع کئے، خوش قسمتی سے ایک رسالہ میرے ہاتھ میں بھی آ گیا ، اُس پر لکھا تھا ، بھیانک اُونٹ ۔ میں گھر آگیا کل پڑھوں گا یہ ذہن بنا کر رسالہ رکھ دیا اور سونے کی تیّاری کرنے لگا۔سونے سے قَبل جوں ہی رِسالہ بھیا نک اونٹ کا جب وَرَق پلٹا تو میری نظر اِس عبارت پر پڑی ، ''شیطان لاکھ سُستی دلائے مگر یہ رسالہ ضَرور پڑھ لیجئے ان شآء اللہ عَزَّوّجَلَّ آپ کے اندر مَدَنی انقِلاب برپا ہو جائیگا۔'' امیرِ اَہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے حکمتوں بھرے اِس جملے نے میری زبردست رَہنمائی کی میں نے سوچا ، واقِعی شیطان مجھے یہ رسالہ کہاں پڑھنے دے گا، کل کس نے دیکھی ہے! نیکی میں دیر نہیں کرنی چاہے، اِس کوابھی پڑھ لینا چاہے ۔ یہ سوچ کر میں نے پڑھنا شُروع کیا۔ اُس پاک پروردگار عَزَّوّجَلَّ کی قسم جس کے دربارِ عالی میں حاضِرہو کر بروزِ قِیامت حساب دینا پڑے گا!جب میں نے رِسالہ بھیانک اُونٹ پڑھا تو اُس میں کفّارِ نابَکار کی جانِب سے سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر توڑے جانے والے مظالم کا پُر سوز بیان پڑھ کر میں اشکبار ہو گیا، میری نیند اُچَٹ گئی ، کافی دیر تک میں روتا رہا۔ راتوں رات میں نے عزم کیا کہ صُبح ہاتھوں ہاتھ مَدَنی قافِلے میں سفر کروں گا۔ جب صُبح والِدین کی خدمت میں عرض کی تو انہوں نے بخوشی اجازت مرحمت فرما دی اور میں تین دن کیلئے عاشِقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی قافِلے کا مسافِر بن گیا، قافِلے والوں نے مجھے بدل کر کیا سے کیا بنا دیا! اَلحمدُللہ عَزَّوّجَلَّ میں نَمازی بن کر پلٹا ،سبز عمامہ شریف کے تاج سے سر سبز ہو گیا ، تن مَدَنی لباس سے آ راستہ ہو گیا۔ میری