ڈھارس دینے کے لیے کہتا ہے کہ یہ تو نَزلے سے بال سفید ہوگئے ہیں !اِسی طرح بیماری جو کہ موت کانُمایاں قاصِدہے مگر اس میں بھی سراسر غفلت برتی جاتی ہے حالانکہ ’’بیماری‘‘ہی کے سبب روزانہ بے شمار افراد موت کا شکار ہوتے ہیں !مریض کو تو بَہُت زیادہ موت یاد آنی چاہئے کہ کیا معلوم جو بیماری معمولی لگ رہی ہے وُہی مُہْلِک صورت اختیا ر کرکے آن کی آن میں فنا کے گھاٹ اُتار دے پھر اپنے روئیں دھوئیں ، دشمن خوشیاں منائیں اورمرنے والا موت سے غافِل مریض مَنوں مِٹّی تلے اندھیری قبر میں جا پڑے!آہ!اب مرنے والا ہوگا اور اُس کے اچھّے بُرے اعمال ۔
جہنّم کے دروازے پر نام
اے آج کے جنابو اور کل کے مرحومو!یاد رکھئے! جوگناہوں پر اَڑا رہا وہ راستہ بھول گیا،غفلتوں اور بے عملیوں کی تاریکیوں میں بھٹک گیااور خدا و مصطَفٰے عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ناراضیوں کی صورت میں قبر و آخِرت کے عذابوں میں پھنس کر رہ گیا، اب پچھتانے اور سر پچھاڑنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، اب بھی موقع ہے جلد تر اپنے گناہوں سے سچّی توبہ کرکے نَمازوں ، رَمضانُ المبارَک کے روزوں اور سنّتوں بھری زندگی گزارنے کا عَہد کرلیجئے ۔ سنئے ! سنئے! سرکارِمدینہ ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جو کوئی ایک نَماز بھی قَصدًاترک کر دے گا،اُس کا نام جہنَّم کے اُس دروازے پر لکھ دیا جائے گا جس سے وہ جہنَّم میں داخِل ہوگا۔(حِلْیَۃُ الْاولیاء ج۷ ص ۲۹۹