کا جُھکاؤ ، اے یعقوب (عَلَیْہِ السَّلام) !موت سے پہلے انسان کی طرف میرے قاصد ہی تو ہیں۔ (مُکاشَفۃُ الْقُلوب ص۲۱)
ایک عَرَبی شاعر کے ان دو اشعار میں کس قَدَر عبرت ہے: ؎
مَضَی الدَّھْرُ وَالْأَیَّامُ وَالذَّنْبُ حَاصِلٌ وَجَاءَ رَسُوْلُ الْمَوْتِ وَالْقَلْبُ غَافِلٌ
نَعِیْمُکَ فِی الدُّنْیَا غُرُوْرٌ وَّحَسْرَۃٌ وَعَیْشُکَ فِی الدُّنْیَا مُحَالٌ وَّبَاطِلٌ
ترجَمۂ اَشعار:{۱} وقت اور دن گزر گئے مگر گناہ باقی ہیں ، موت کا فِرِشتہ آپہنچا اور دل غافِل ہیں {۲}تجھے دنیا میں ملنے والی نعمتیں دھو کا اور تیرے لیے باعثِ حسرت ہیں اور دنیا میں دائمی یعنی ہمیشہ باقی رہنے والی راحتیں پانے کا تصوُّرتیری خام خیالی(یعنی غلط فہمی) ہے۔ (ایضاً ص۲۲)
بیماری بھی موت کا قاصِد ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! معلوم ہوا کہ موت کے آنے سے پہلے مَلَکُ الْموت عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اپنے قاصد بھیجتے ہیں۔بیان کردہ تین قاصِدِین کے علاوہ بھی احادیثِ مبارکہ میں مزید قاصد ین کا تذکِرہ ملتا ہے۔چُنانچِہ مَرَض ، کانوں اور آنکھوں کا تَغَیُّر (یعنی پہلے نظر اچّھی ہونا پھر کمزور پڑ جانا اور سننے کی طاقت کی دُرُستی کے بعد بہرا پن کی آمد ) بھی موت کے قاصد ہیں۔ہم میں سے بَہُت سے لوگ ایسے ہوں گے جن کے پاس مَلکُ الْموت عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے قاصِد تشریف لاچکے ہوں گے مگر کیا کہیے اِس غفلت کا! اگر سیاہ بالوں کے بعد سفید بال ہونے لگتے ہیں حالانکہ یہ موت کا قاصد ہے مگر بندہ اپنے دل کو