ہے‘‘اس میں کوئی حَرَج نہیں کہ اس سے مُراد بھی یِہِی ہے کہ یہ بکرا غوثِ پاک عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرَزَّاقکے ایصالِ ثواب کیلئے ہے۔ قربانی کے جانور کو بھی تو لوگ ایک دوسرے ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں ، مَثَلاً کوئی اپنی قربانی کا بکرا لئے چلا آرہا ہو اور اگر آپ اُس سے پوچھیں کہ کس کا بکراہے ؟تو اُس نے کچھ اس طرح جواب دینا ہے،’’میرا بکراہے‘‘ یا ’’میرے ماموں کا بکرا ہے۔ ‘‘جب یہ کہنے والے پر اعتِراض نہیں تو ’’غوثِ پاک کا بکرا‘‘کہنے والے پر بھی کوئی اعتِراض نہیں ہو سکتا۔حقیقت میں ہر شے کا مالکاللہ عَزَّوَجَلَّ ہی ہے اور قربانی کا بکرا ہو یا غوثِ پاک کا بکرا، ذَبْح کے وَقت ہر ذَبیحہ پر اللہ عَزَّوَجَلَّکاہی نام لیا جاتا ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّوَسوَسوں سے نَجات بخشے۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’اللہکی رَحْمت کے کیا کہنے!‘‘کے اُنّیس حُرُوف کی
نسبت سے ایصالِ ثواب کے 19مَدَنی پھول
{1}ایصالِ ثواب کے لفظی مَعنیٰ ہیں : ’’ثواب پہچانا‘‘ اِ س کو’’ثواب بخشنا‘‘ بھی کہتے ہیں مگر بُزُرگوں کیلئے ’’ثواب بخشنا‘‘ کہنا مُناسِب نہیں ،’’ثواب نَذْر کرنا‘‘ کہنا ادب کے زیادہ قریب ہے۔امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں: حُضُورِاقدس عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلاةِ وَالتَّسْلِيْمخواہ اورنبی یاولی کو ’’ثواب بخشنا ‘‘کہنابے ادَبی ہے بخشنابڑے کی طرف سے چھوٹے کوہوتاہے بلکہ نَذر کرنایاہدِیَّہ کرناکہے۔(فتاوٰی رضویہ ج۲۶ص ۶۰۹)