فیضانِ زکاۃ |
مال ِ تجارت اُس مال کو کہتے ہیں جسے بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہے اور اگر خریدنے یا میراث میں ملنے کے بعد تجارت کی نیت کی تو اب وہ مالِ تجارت نہیں کہلائے گا ۔
(ماخوذ از ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ،باب زکوٰۃالمال،ج۳،ص۲۲۱)
مثلاً زید نے موٹرسائیکل اس نیت سے خریدی کہ اسے بیچ دوں گا اور نفع کماؤں گا تو یہ مالِ تجارت ہے اور اگر اپنے استعمال کے لیے خریدی تھی ،اُس وقت بیچنے کی نیت نہیں تھی صرف استعمال کی تھی مگر خریدنے کے بعد نیت کرلی کہ اچھے دام ملیں گے تو بیچ دوں گا یا پختہ نیت ہی کرلی کہ اب اس کو بیچ ڈالنا ہے تب بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہوگی کیونکہ خریدتے وقت کی نیت پر زکوٰۃ کے احکام مرتب ہوں گے۔
وراثت میں چھوڑا ہوا مالِ تجارت
اگرکسی نے وراثت میں مال ِ تجارت چھوڑا تو اگر اس کے مرنے کے بعد وارثوں نے تجارت کی نیّت کر لی تو زکوٰۃ واجب ہے۔
(بہارِ شریعت ،ج۱،حصہ۵،مسئلہ۳۶،ص ۸۸۳)
مالِ تجارت کا نصاب
مالِ تجارت کی کوئی بھی چیز ہو، جس کی قیمت سونے یاچاندی کے نصاب(یعنی ساڑھے سات تولے سونے یا ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت) کو پہنچے تو اس پر بھی زکوٰۃ وا جب ہے ۔
(بہارِ شریعت ،ج۱،مسئلہ ۴،حصہ۵، ص۹۰۳ )