Brailvi Books

فیضانِ زکاۃ
29 - 149
کاحساب اُس نصاب سے لگایا جائے گا جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو مثلاً اگر تمام مال کو چاندی شمار کرکے زکوٰۃ نکالنے میں زکوٰۃ زیادہ بنتی ہے تو یہی کیا جائے اور اگر سونا شمار کرنے میں زکوٰۃ زیادہ بنتی ہے تو اسی طرح کیا جائے گا اور اگر دونوں صورتوں میں یکساں بنتی ہے تو اس سے حساب لگائیں گے جس سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا رواج زیادہ ہو ،پھر اگر رواج یکساں ہو تو زکوٰۃدینے والے کو اِختیار ہے کہ چاہے تو سونے کے حساب سے زکوٰۃ دے یا چاندی کے حساب سے ۔

    فتاویٰ شامی میں ہے :''نصاب کو پہنچانے والی قیمت ضم کے لئے متعین ہوگی دوسرے کی نہیں ،اور اگر دونوں سے نصاب پورا ہوتا ہو جبکہ ایک کا زیادہ رواج ہو تو جو زیادہ رائج ہو اسی کے حساب سے قیمت لگائی جائے گی۔ ''(ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ،باب زکوٰۃ المال،ج۳،ص۲۷۱ ملخصاً)شرح نقایہ میں ہے:'' اگر دونوں (کا رواج) یکساں ہو تو مالک کو اختیار ہوگا۔''
(شرح نقایہ،کتاب الزکوٰۃ ،ج۱،ص۳۱۳)

    اگر مختلف مال ہوں اور ہرایک نصاب کوپہنچتا ہو تواس میں 3صورتیں ممکن ہیں:

    پہلی : ہر ایک مال محض مکمل نصاب پر مشتمل ہو ،اس سے کچھ زائد نہ ہو ، (مثلاً ساڑھے سات تولے سونا اور ساڑھے باون تولے چاندی ہو)تو ایسی صورت میں اگر ملاناچاہیں تو وہ حساب لگایاجائے گاجس میں زکوٰۃ زیادہ بنتی ہو۔
 (ماخوذ از بدائع الصنائع ،فصل وامامقدار الواجب فیہ ،ج ۲، ص۱۰۸)
Flag Counter