کاحساب اُس نصاب سے لگایا جائے گا جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو مثلاً اگر تمام مال کو چاندی شمار کرکے زکوٰۃ نکالنے میں زکوٰۃ زیادہ بنتی ہے تو یہی کیا جائے اور اگر سونا شمار کرنے میں زکوٰۃ زیادہ بنتی ہے تو اسی طرح کیا جائے گا اور اگر دونوں صورتوں میں یکساں بنتی ہے تو اس سے حساب لگائیں گے جس سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا رواج زیادہ ہو ،پھر اگر رواج یکساں ہو تو زکوٰۃدینے والے کو اِختیار ہے کہ چاہے تو سونے کے حساب سے زکوٰۃ دے یا چاندی کے حساب سے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے :''نصاب کو پہنچانے والی قیمت ضم کے لئے متعین ہوگی دوسرے کی نہیں ،اور اگر دونوں سے نصاب پورا ہوتا ہو جبکہ ایک کا زیادہ رواج ہو تو جو زیادہ رائج ہو اسی کے حساب سے قیمت لگائی جائے گی۔ ''(ردالمحتار،کتاب الزکوٰۃ،باب زکوٰۃ المال،ج۳،ص۲۷۱ ملخصاً)شرح نقایہ میں ہے:'' اگر دونوں (کا رواج) یکساں ہو تو مالک کو اختیار ہوگا۔''