حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکا نام ہے اوریہ نام ان کے والد نے رکھا۔جبکہ حضرت سیدنا موسی بن طلحہرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ سے مروی ہے کہ ’’یہ نام آپ کی والدہ نے رکھا۔‘‘ (الریاض النضرۃ،ج۱، ص۷۷)
ان تمام اقوال میں مطابقت
ان تینوں اقوال میں کوئی تضاد نہیں ،مطابقت کی صورت یہ ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے توآپ کے والدین نے آپ کا نام عبد الکعبہ رکھا،بعدمیں انہوں نے یا سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تبدیل کرکے عبداللہ رکھ دیا، اور عتیق آپ کا لقب تھا، لیکن اسے نام کی حیثیت حاصل ہوگئی ۔
آپ کی کنیت
آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکی کنیت ابوبکر ہے،واضح رہے کہ آپ اپنے نام سے نہیں بلکہ کنیت سے مشہور ہیں، نیز آپ کی اس کنیت کی اتنی شہرت ہے کہ عوام الناس اسے آپ کااصل نام سمجھتے ہیں حالانکہ آپ کا نام عبد اللہ ہے۔
ابوبکر کنیت کی وجوہات
(۱)عربی زبان میں’’اَلْبَکْر‘‘جوان اونٹ کوکہتے ہیں، اس کی جمع ’’اَبْکُر‘‘ اور ’’بِکَار‘‘ہے،جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یاجس کا قبیلہ بہت بڑا ہوتا یاجواونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘کہتے تھے،چونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کاقبیلہ بھی بہت بڑاتھااوربہت مالداربھی تھےنیزاونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھےاس لیے آپ بھی’’ابوبکر‘‘کےنام سے مشہور ہوگئے۔
(۲)عربی زبان میں اَبُو کا معنی ہے’’والا‘‘اور’’بَکْر‘‘کے معنی ’’اوّلیت‘‘ کے ہیں،توابوبکر کے معنی ہوئے ’’اوّلیت والا‘‘چونکہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہاسلام لانے، مال خرچ کرنے،جان لٹانے،ہجرت کرنے،حضور کی وفات کے بعد وفات، قیامت کے دن قبر کھلنے وغیرہ ہرمعاملے میں اوّلیت رکھتےہیں اس لیے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہکوابوبکر (یعنی اوّلیت