فیضانِ مُرشد |
کتابیں ازبر (یعنی حفظ) کرلی تھیں اور اس میں خوب ماہر ہوگیا تھا۔میرے عَمِّ مکرَّم (یعنی چچا جان)پیرِ معظم حضرت سَیِّدِی نجیبُ الدِّین عبدُالقاہِر سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ایک روز مجھے ساتھ لے کر بارگاہِ غوثیت پناہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں حاضر ہوئے ۔راہ میں مجھ سے فرمایا :اے عمر! رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہہم اِس وقت اُس کے حضور حاضر ہونے کو ہیں ،جس کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دیتا ہے،دیکھ! ان کے سامنے باحتیاط (یعنی محتاط) حاضر ہونا کہ ان کے دیدار سے بَرَکَت پاؤ۔ جب ہم حاضرِ بارگاہ ہوئے تو میرے پیر ( سَیِّدِی نَجیبُ الدِّین عبدُالقاہِر سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی) نے حضرت سیدنا غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَمْ سے عرضکی:''اے میرے آقا!رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ میرا بھتیجا علمِ کلام ۱ ؎میں آلودہ ہے ،میں
مــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینہ ۱؎:عِلمِ کلام:مذہبی اُمور کو دلائل سے ثابت کرنا یعنی مذہبی بحث ومناظرہ کا علم۔ (فیروز اللغات،ص۹۰۲) اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتاویٰ رضویہ،جلد23صفحہ627تا628لکھتے ہیں :''ائمہ دین فرماتے ہیں جو علم کلام میں مشغول رہے اس کا نام دفترِ علماء سے محو ہو جائے۔جب متاخرین کا علم کلام جس کے اصل اصول عقائد سنّت و اسلام ہیں بوجہ اختلاط فلسفہ وزیادات مزخرفہ مذ موم ٹھہرا اور اس کا مشتغل لقب عالم کا مستحق نہ ہوا تو خاص فلسفہ ومنطق فلاسفہ ودیگر خرافات کا کیا ذکر ہے،ولہذا حکم شرعی ہے کہ اگر کوئی شخص علمائے شہر کے لئے کچھ وصیت کر جائے تو ان فنون کا جاننے والا ہر گز اس میں داخل نہ ہو گا۔'' ۲؎: علمِ لَدُّنی:وہ علم جو کسی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست بغیر استاد حاصل ہو۔(فیروز اللغات،ص۹۰۲) ۳؎:علمِ الٰہی:اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم۔(وہ علم جس میں ان امور سے بحث کی جائے جو وجود خارجی یاعقل میں مادہ کے محتاج نہ ہوں۔)(فیروز اللغات،ص۹۰۲)