رَضَویہ جلد 19 کے صفحہ 433 پر لکھتے ہیں ۱؎ :اگر فی الواقع وہ شخص علمائے اہلسنّت و جماعت ایَّدَہَمُ اللہ تعالٰی سے ہے اور جو باتیں حقیقیۃً شرک ہیں اُنہی کے معتقد (یعنی اعتقاد رکھنے والے)کو مشرِک کہتا ہے اور اَحکامِ مشرِکین میں داخل کرتا ہے اور جو نَو پیدا (یعنی نئی)باتیں مخالفِ شریعت و مُزاحِم سنّت (یعنی سنت کو روکنے والی )ایجاد کی گئیں انہیں کو بدعتِ شَرعِیہ ومَذْمومہ و شَنْیِعَہ جانتا اور ان سے نَہی و تَحذیر (یعنی منع کرتا ، ڈر سُناتا) ہے، اور شَعائرِ اسلام (مثلاًمساجد ، اذان،، حج وغیرہ ) اور نَماز صلوٰۃ وصِیام (یعنی نماز و روزہ ) وغیرہا کے اَحکام صحیح صحیح سکھاتا اور بارعایتِ شرائط و قواعد احتساب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(یعنی بااندازِ اَحسن نیکی کا حکم کرنااور بُرائی سے منع کرنا) بجالاتا ہے، اور وَعْظ میں روایاتِ باطلہ، و خُرافاتِ مُخْتَرَعہ(یعنی من گڑھت بکواسات) و بیانات مُشیرہِ اَوہام(یعنی ایسی باتیں جو وہم پر مبنی ہوں) و مفسِدہ خیالاتِ عوام (یعنی عام لوگوں میں پائے جانے والے غلط خیالات)سے احتراز رکھتا(یعنی بچتا)اور علمِ کافی و فَہمِ صافی(یعنی واضِح سمجھ) کے ساتھ ہدایت و ارشاد میں ٹھیک مِعیارِ شرع پر چلتاہے ، تو اسے نہ صرف عالِم بلکہ اس زمانہ میں اراکینِ دین و سنّت (یعنی دین و سنّت کے ستون)و خُلَفائے رِسالت عَلَیْہِ اَفْضَلِ الصَّلٰوۃِ وَالتَّحِیَّۃِ (یعنی سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ''خلیفہ''و ''نائب'')اور اَولیائے جنابِ اَحَدِیّت آلاء جِلَّت (یعنی اللہ جل جلالہ کے اولیاءِ