فیضانِ امیرِ اہلسنّت |
امیرِ اہلسنّت دامَت بَرَکاتُہُمُ الْعالیہ کے بلند پایہ مقام اور عظمت کا اندازہ امامِ اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس مبارَک فتویٰ سے لگایا جاسکتا ہے۔(جو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اُس سُنی حنفی شخص کے بارے میں دیا جس کی خدماتِ دین امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی دینی خدمات سے مماثلت رکھتی تھیں۔ )
امامِ اہلِسنّت علیہ رحمۃ الرحمن کا مُبارَک فتوٰی:
امامِ اہلِسنّت مجددِ دین وملت اعلیٰ حضرت الشاہ مولانا احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن سے ایک سُنی حَنَفی شخص کے بارے میں کچھ اس طرح سوال ہوا کہ ہم ایسے شخص سے عقیدت رکھیں یا نہیں جس کے بیانات کے اثر سے شرک و بدعات وغیرہ کافور ہوتی چلی جاتی ہیں، اور ہزارہا مسلمان،جو ضروری شَعاِئرِ اسلام اور نماز روزوں کے مسائل سے بھی واقفیت نہ رکھتے تھے وہ خود یعنی نماز کے مسائل سکھانے کیلئے درس و بیان کرنے والے اور امامِ مساجد ہوگئے، اور یہ شخص مختلف اوقات میں مختلف مقامات پردشمنانِ دین کے مقابلے میں علی الاعلان جِہادلِسانی (یعنی زبانی جہاد) کرتاہے، اگر ایسے شخص کو مسلمان' عالمِ باعمل اور انبیاء علیہم السلام کا وارِث سمجھتے ہوئے کچھ نقد وغیرہ بِلا اس کی طمع(یعنی بغیرخواہش) اور درخواست کے تعظیماً اُس کی نذر کریں اور اَہلِ اسلام ایسے شخص کو مُعتَقَد علیہ(یعنی جس شخص سے عقیدت رکھی جائے ) تصوّر کریں یا نہیں؟ اور اس نذ راور تحفہ کے بدلے اجرِ عظیم پائیں گے یا نہیں؟ اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العزت فتاوٰی