عیدین میں گلے ملناکیسا؟ |
کو اس مسئلہ سے اصلاً تعلق نہیں کہ وہاں بدعت سے مراد بدعتِ مذمومہ ہے ،جب تو اس سے بچنے کے لیے سنت کو چھوڑنا تک گوارا کیا ورنہ بدعتِ مباحہ سے بچنا خود ہی مطلوب نہیں ،نہ کہ اس کے لیے سنت چھوڑ دینے کا حکم دیا جائے ،
وھذا ظاھر علی کل من لہ حظ من عقل صفي(۲)۔
دہم: فتوٰی فقیر میں میاں اسمٰعیل دہلوی کی بھی عبارت تھی، جس میں معانقہ عید کے مستحسن ہونے کی صاف تصریح ہے ،اس سے جناب نے کچھ تعرض(۳) نہ فرمایا بلکہ ''مجموعہ فتاوٰی'' و عباراتِ ''ردالمحتار'' و ''مرقاۃ'' پیش فرمائیں ۔اس میں دو احتمال (۴)ہیں : ایک وہ ،طائفہ مانعین جس کے خوگر(۵) ہیں یعنی ہفواتِ باطلہ و خرافاتِ عاطلہ(۶) میں دہلوی مذکور کو امام اکبر مانتے ہیں اور جو باتیں وہ، بعلّتِ مناقضت(۷) جس کا اس کے یہاں حد سے زائد جوش و خروش ہے، اصول و فروعِ طائفہ کے خلاف لکھتا ہے، دیوار سے مارتے ہیں ۔ دوم یہ کہ جناب کوا س سے کچھ کام نہیں جو کلام اس کا تصریحاتِ امثال
۱۔جب حکم کسی سنّت اوربدعت کے درمیان مشکوک ہوجائے تو سنّت کے چھوڑنے کو ،بدعت کے کرنے پر فوقیت حاصل ہے۔ (ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،مطلب:إذا ترددالحکم ألخ،ج۲،ص۴۹۳، دارالفکر، بیروت) ۲۔یہ ہر اُس شخص پر واضح ہے جسے پسندیدہ اور خالص عقل سے کچھ حصّہ ملاہے۔ ۳۔طلب ۴۔گمان،باتیں ۵۔عادی ۶۔غلط،بیہودہ اورفضول،بے کار باتوں ۷۔بطور اعتراض