افسوس کہ دوعبارتیں جناب نے دیکھیں ،اور اتنی عباراتِ کثیرہ جو جناب کے خلاف تھیں نظر سے رہ گئیں ،خیر ،ماناکہ اس میں اکثر کتب مطالعہ سامی(۲) میں نہ آئی ہوں،آخر ''درمختار'' اور'' ردالمحتار'' تو پیشِ نظر تھیں ،''درمختار'' کی وہ عبارت ملاحظہ فرمائی ہوگی کہ مصافحہ مذکورہ، بدعتِ حسنہ ہے ۔''ردالمحتار'' میں رسالہ علامہ شرنبلالی کاکلام اور علامہ شمس الدین حانوتی کا فتوٰی دیکھا ہی ہوگا،سب جانے دیجئے،یہ ''فتاوٰی لکھنؤ ''جو استناداً پیش فرمایا اسی میں یہیں یہ الفاظ موجود کہ ''علماء اس باب میں مختلف ہیں، بعض بدعتِ مباحہ کہتے ہیں اور بعض بدعتِ مکروہہ،مسئلہ مصافحہ کا اختلافی ہونا پایا یا نہیں ؟بہت واضح راہ تھی کہ ترجیح(۳) تلاش فرمائی جاتی ،جو قول مرجح(۴) نکلتا اسی پر عمل کرنا تھا ،اگر جناب کی نظر ترجیح تک نہ پہنچی تو فقیر سے سنئے،علامہ شہاب الدین خُفاجی حنفی'' نسیم الریاض شرح شفائے اما م قاضی عیاض'' میں فرماتے ہیں :