۱۔(علامہ)ابن حجر شافعی نے مصافحہ بعد نماز سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ بدعت ہے ان کے(اِس) جواب کی کوئی(قابلِ قبول)وجہ نہیں ،اس لئے کہ سلامِ نماز کی حالت،حالت ملاقات ہے، اس لئے جب نماز پڑھنے والے نے تحریمہ باندھ لیا تو وہ لوگوں سے غیرحاضراور اللہ عزّوجل تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوگیا پھر جب اس (اللہ عزّوجل عزّوجل)کے حق کی ادائیگی سے فارغ ہوا تو اس سے کہا گیا کہ :اب تو اپنی ضروریات کی طرف واپس ہو اور اپنے (مسلمان)بھائیوں کو سلام کر،کیونکہ تُو اپنی غیر حاضری سے آرہا ہے؛اسی لئے تو وہ اپنے سلام میں لوگوں کی بھی نیّت کریگا۔جیسے محافظ فرشتوں کی نیّت کریگااور جب سلام کیا تو مصافحہ اس کے لئے مستحب یا مسنون ہے ،جیسے سلام،اسی طرح شیخ الاسلام ،ہمارے مشائخ کے شیخ،شمس الدین محمد بن سراج الدین حانوتی نے جواب دیا،جب کہ ان کے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا تھا
تو انہوں نے فرمایا:علماء نے کافر سے تو نہیں مگر مسلمان سے مصافحہ کو کسی خاص وقت کی کوئی قیدلگائے بغیر مسنون ہونے پر نص فرمایا ہے۔اس لئے کہ حضور علیہ ا لصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے :
''جس نے اپنے مسلمان بھائی سے مصافحہ کیا اور اپنے ہاتھ کو حرکت دی تو اس کے گناہ جھڑتے ہیں اور دونوں پر کُل سو رحمتیں نازل ہوتیں ہیں،ننانوے اس کے لئے جس نے مصافحہ میں پہل کی اور ایک اس کے دوسرے ساتھی کے لئے ''اور (حضور صلی اللہ عزّوجل تعالیٰ علیہ وسلم نے)یہ بھی فرمایا کہ ''جب دو مسلمان ایک دوسرے سے ملتے پھر مصافحہ کرتے ہیں تو جُدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت ہوجاتی ہے''۔
پہلی حدیث کا تقاضہ یہ ہے کہ مصافحہ،مطلقاً(بغیر کسی قید کے)جائز ومشروع ہو ،خواہ نماز پنجگانہ ،جمعہ اور عیدین کے بعد ہویا کسی اور وقت ،اس لئے کہ نبی صلی اللہ عزّوجل تعالیٰ علیہ وسلم نے مصافحہ کو کسی خاص وقت سے مقیّد نہ فرمایا اور حنفیہ کے نزدیک دلیل عام کا بھی وہی رتبہ ہے جو دلیل خاص کا ہے،جبکہ دلیل عام کو حکم کے لئے قطعی طور پر لازم کرنے والی دلیلوں سے خاص=