''والمعانقۃ یومَ العید أیضا(۳)''۔
''مناصحۃ في تحقیق مسائل المصافحۃ'' میں تکملہ شرح اربعین سے ہے:
''لا وجہ لجواب إبن حجر الشافعي وقد سُئل عن المصافحۃ بعد الصلاۃ فقال: ھی بدعۃ،انتھی؛ لأن حالۃ السلام حالۃ اللقائ؛ لأن المصلي لما أحرم صار غائبا عن الناس مقبلا علی
۱۔شیخ ابو الحسن بکری فرماتے ہیں کہ ان(امام نووی) نے بعد فجر وعصرکی قید کے ساتھ اس (مصافحہ)کا ذکر اس لئے فرمایا کہ ان کے زمانے میں یہی رائج تھا،ورنہ اس(بعد فجروعصر)کی طرح تمام نمازوں کے بعد مصافحہ جائز ہے ۔یہی علامہ شرنبلالی کے مصافحہ کے متعلق رسالہ میں ہے اور اسی کے مثل علامہ شمس الدین حانوتی سے منقول ہے کہ انہوں نے اس(مصافحہ)کے جواز کے بارے میں واردشدہ(احادیث اور)نصوص سے استدلال فرماتے ہوئے اس (مصافحہ)کے بھی جائز ہونے کا فتوٰی دیاہے۔اور یہی اس کے موافق ہے جو شارح(یعنی صاحبِ درمختار،علاء الدین حصکفی)نے متونِ(فقہ)کا اطلاق ذکر کیا ہے۔
(ردالمحتار،کتاب الحظر والإباحۃ،باب الاستبراء وغیرہ،ج۹،ص۶۲۸،دارالمعرفۃ،بیروت)
۲۔میں کہتا ہوں:(جس طرح امام نووی نے مصافحہ بعد فجر وعصر کے جواز میں استدلال کیا ہے)یہی استدلال مصافحہ (روزِ)عید میں بھی جاری ہونا چاہے۔ (مسوّٰی)
۳۔اور روزِ عید کے''معانقہ''میں بھی