عیدین میں گلے ملناکیسا؟ |
یہ مجموعہ آپ کے نزدیک مستند ہے تو فرمایا :''ہمارے نزدیک مستند نہ ہوتا تو ہم پیش کیوں کرتے'' اور واقعی یہ فرمانا ظاہر وبجا ہے ،فقیر کو اگرچہ ایسے معارضہ(۱) کا جواب دینا ضرور نہ تھا مگرحسبِ اِصرارِ سائل ،محض بغرضِ اِحقاقِ حق و اِزہاقِ باطل،چند التماس(۲) ہیں،معاذاللہ کسی دوسری و جہ پر حمل(۳) نہ فرمائیے،فقیر ہر مُسِن(۴) مسلمان کو مستحقِ ادب جانتا ہے ،خصوصاً جناب تو اہل ِ علم و سادات سے ہیں،مقصود صرف اتنا ہے کہ جناب بھی بمقتضائے بزرگیِ حسب و نسب و عمر و علم ان گزارشوں کو بنظرِ غورو تحقیقِ حق ،استماع (۵)فرمائیں، اگر حق واضح ہو تو قبول ،مرجوح ومامول کہ علماء کے لئے رجوع الی الحق عار نہیں بلکہ معاذ اللہ اِصرار علی الباطل(۶)قال تعالیٰ:
فَبَشِّرْ عِبَادِ ﴿ۙ۱۷﴾ الَّذِیۡنَ یَسْتَمِعُوۡنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحْسَنَہٗ ؕ (7)
التماس اول : اس'' مجموعہ فتاوٰی'' سے استناد، الزاماً ہے یا تحقیقاً؟ علی الاوّل(۸) فقیر نے کب کہا تھا کہ کسی معاصر کی تحریر مجھ پر حجت ہے ، علی الثانی(۹) پہلے دلیل سے ثابت کرنا تھا کہ یہ کتاب خادمانِ علم پر احتجاجاً پیش کرنے کے قابل ہے ۔
۱۔اعتراض ۲۔گزارشات ۳۔یعنی کوئی دوسری وجہ خیال ۴۔سنّت پر عمل کرنے والے ۵۔ نہایت توجہ سے سماعت ۶۔اگر حق واضح ہو تو اسی کو قبول کیاجائے،ترجیح دی جائے گی،کیونکہ علماء کے لئے حق کی طرف رجوع کرنے میں شرم نہیں بلکہ شرم کامقام تو ،معاذ اللہ عزّوجل، باطل پر اصرار کرنے میں ہے۔ ۷۔ترجمہ کنزالایمان:''تو خوشی سناؤ میرے ان بندوں کو جو کان لگا کر بات سنیں،پھراس کے بہتر پر چلیں''۔(پ۲۳،الزّمر:۱۷،۱۸) ۸۔ پہلی صورت یعنی استناد الزاماًہے تو ۹۔اور دوسری صورت یعنی استناد، تحقیقاً ہے تو