عیدین میں گلے ملناکیسا؟ |
ہے (۱)الخ۔ ابوالحسنات محمد عبد الحیی عبارات کہ حاشیہ پر لکھ کر پیش کی گئیں بحروفہٖ(۲) یہ ہیں :
إذا تردد الحکم بین سنّۃ وبدعۃ کان ترک السنۃ راجحا علی فعل البدعۃ۱۲ ردالمحتار(۳) نقل في تبیین المحارم عن الملتقط: أنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال لأن الصحابۃ رضي اللہ تعالی عنھم ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ؛ ولأنھا من سنن الروافض اھ ثم نقل عن إبن حجر من الشافعیۃ: أنھا بدعۃ مکروھۃ لا أصل لھا في الشرع وأنہ ینبہ فاعلھا أولاً و یعزر ثانیا ثم قال: وقال إبن الحاج من
= لیں گے اور ابن حجر شافعی نے اسے''مکروہ''کہا ہے۔(iv) عبارتِ''مدخل''ابن حاج مالکی المذہب کہ غَیبت(یعنی جُدا ہونے)کے بعد،ابن عُینہ نے جائز رکھا اور عید میں ان لوگوں سے،جو اپنے ساتھ حاضر ہیں نہیں۔اورمصافحہ ،بعدِ عید معروف نہیں مگر عبد اللہ عزّوجل بن نعمان فرماتے ہیں :میں نے مدینہ خاص میں جبکہ وہاں،علماء صالحین بکثرت موجود تھے،دیکھا کہ وہ نمازِ عید سے فارغ ہو کر آپس میں مصافحہ کرتے،تو اگر سلف(یعنی پہلے کے بزرگوں)سے نقل،مساعد (مددگار)ہو تو کیا کہنا ورنہ ترک،اولیٰ(یعنی چھوڑنا بہتر)ہے۔ ۱۲منہ (رضی اللہ عزّوجل تعالیٰ عنہ) ۱۔مجموعہ فتاوٰی ۲۔اس کے حروف ۳۔جب حکم،سنّت اور بدعت کے درمیان مشکوک ہوتو بدعت اختیار کرنے پر سنّت کو چھوڑنے کو ترجیح دی جائے گی۔ (ردالمحتار،کتاب الصلاۃ، مطلب:إذا تردد الحکم ألخ،ج۲،ص۴۹۳،دارالمعرفۃ،بیروت)