غَمْرُ الرِّدَاءِ اِذَا تَبَسَّمَ ضَاحِکاً غَلِقَتْ بِضِحْکَتِہٖ رِقَابُ الْمَال
یعنی وہ کثیر العطاء ہے کہ جب وہ مسکراتے ہوئے ہنس پڑتاہے تو سائلوں کے ہاتھ کا مال ناقابل انفکاک ہوجاتا ہے۔ یعنی بغیر اجازت کے ممدوح کا مال لے جانے والے بہت سے سائلین کو جب پکڑکر دربار شاہی میں پیش کیاجاتاہے تو ممدوح انہیں دیکھ کر بجائے افروختہ ہونے کے مسکراکر ہنس پڑتاہے اور مال واپس نہیں لیتا گویا اس کا تبسم سائل کے ہاتھ میں مالِ ماخوذ کے متمکن ہونے کا ذریعہ ہواکہ اب یہ مال ان سے جدا نہیں کیا جائے گا ۔
اس شعر میں شاعر نے عطاء کو رداء سے تشبیہ دیکر لفظ رداء کواستعارہ کے طورپر عطاء کے لیے استعمال کیاہے۔وجہ شبہ یہ ہے کہ جس طرح چادر دھوپ، گرد وغبار وغیرہ سے بچاتی ہے اسی طرح عطاء بھی عزت مُعطِی کو بچاتی ہے ۔اور مستعار لہ، (عطاء)کے مناسب (غمریعنی کثرت والا)کو بطور استعارہ مجرّدہ استعمال کیا ہے۔اسے''تجرید ''بھی کہتے ہیں۔
3۔۔۔۔۔۔اِستِعارَہ مُرَشَّحَہ:وہ استعارہ جس میں مستعار منہ کے مناسب کو ذکر کیا گیاہو۔ جیسے قران کریم میں ارشاد ہے:
( اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمْ )(2/16)
''اِسْتِبْدَالُ الْحَقِّ بِالْبَاطِل''
کو''اِشْتِرَاء''سے تشبیہ دی گئی جو
''اِسْتِبْدَالُ الْمَالِ بِالْمَال ''
سے عبارت ہے ۔پھر لفظ اشتراء کو بطور استعارہ استبدال کے لیے استعمال کیاگیا،اور مستعارمنہ کے مناسب
(نَفْیُ رِبْحٍ فَی التِجَارَۃ)
کو بطور استعارہ مرشحہ ذکر کیا گیا ۔ اسے ''تَرْ شِیْح'' بھی کہتے ہیں۔
یہ جو کچھ بیان کیاگیا ہے
اِستِعَارَہ فِی الْمُفْرَد
کی بحث تھی اور استعارہ کی دوسری قسم
اِستِعارَہ فِی الْمُرَکَّب
ہے یعنی وہ مرکب جو غیر معنی موضوع لہ میں مستعمل ہواور اس کے معنی حقیقی (جس کے لیے اسے وضع کیا گیا ہے)اور معنی مجازی (جس میں وہ استعمال کیاجارہاہے)کے مابین علاقہ''مشابہت''ہو۔اسے
''تَمْثِیْلٌ عَلَی سَبِیْلِ الْاِستِعارَہ ''
یا ''اِستِعارَہ تَمْثِیْلِیَّہ'' یا صرف ''تَمْثِیْل'' بھی کہتے ہیں۔
اگر اس کا استعمال بحیثیت استعارہ شائع وذائع ہو جائے تو اسی کو ''مِثْل'' اور ''مِثَال'' کہتے ہیں۔ جیسے :کسی متردد فی الامرسے کہاجائے :
''أُرَاکَ تُقَدِّمُ رِجْلاً وَتُؤَخِّرُ اُئخْرٰی''
(میں تجھے دیکھ رہاہوں کہ تو پس و پیش سے کام لے رہاہے)