Brailvi Books

دِيوانِ حماسه
19 - 324
 (6)۔۔۔۔۔۔تقسیم استعارہ باعتبار لفظ ِمستعار:
    لفظ مستعار کے اعتبار سے استعارہ کی دوقسمیں ہیں :

    1۔۔۔۔۔۔اِستِعارَہ أَصْلِیَّہ:وہ استعارہ جس میں لفظ مستعار اسم جنس ہو۔ یعنی نہ فعل ہونہ حرف ہو اور نہ ہی اسم مشتق ہو ۔خواہ اسمِ عین ہو۔ جیسے:
''رَأَیْتُ أَسَداً یَرْمِيْ''
میں کہ رجل شجاع کو اسدسے تشبیہ دیکر لفظ اسد کو اس کے لیے بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے، اس میں لفظ مستعار (اسد)ہے جو اسم جنس اوراسم عین ہے۔یااسمِ معنی (مصدر)ہو۔ جیسے:
''لَقِیْتُ مَنْ قَرَّبَ بِمَوْتِہِ قَتْلُکَ اِیَّاہُ''
 (میں اس سے ملا جسے تیری ضرب شدید نے ادھ موا بنا دیا )اس میں ضرب شدید کو قتل سے تشبیہ دیکر لفظ ''قتل ''کو ضرب شدید کے لیے بطوراستعارہ استعمال کیا گیا ہے ۔اس میں بھی لفظ مستعار اسم جنس ہے اور مصدر ہے ۔

    2۔۔۔۔۔۔اِستِعارَہ تَبَعِیَّہ: وہ استعارہ جس میں لفظ مستعار اسم جنس نہ ہو بلکہ اسم مشتق یا فعل یا حرف ہو۔

     فعل اوراسم مشتق میں استعارہ تبعیہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اوّلاً کسی معنی کو کسی مصدر سے تشبیہ دیکر مصدر ِمشبہ بہ سے فعل یا اسم مشتق کرکے مشبہ کے لیے بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں ۔جیسے:
''نَطَقَتْ الْحَالُ بِکَذَا''
 (حال نے یہ بیان کردیا )

    اس میں اولاً دلالت حال کو مصدر ''نُطْق'' سے تشبیہ دی گئی وجہ شبہ''ایضاح وایصال معنی '' ہے کہ جس طرح نطق سے معنی کی توضیح ہوجاتی ہے اور معنی مخاطب کے ذہن تک پہنچ جاتا ہے اسی طرح دلالت حال سے بھی ایضاح معنی ہوجاتاہے، پھر لفظ''نطق''سے فعل مشتق کرکے دلالت حال کے لیے استعمال کیا گیا۔اسی طرح''
اَلْحَالُ نَاطِقَۃٌ بِکَذَا''
میں ۔

    اور حرف میں اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی معنی کو معنئ حرف کے متعلق سے تشبیہ دیکر جس حرف کے متعلق ِمعنی سے تشبیہ دی گئی ہے اسے مشبہ کے لیے بطور استعارہ استعمال کرتے ہیں۔جیسے:
 (فَالْتَقَطَہٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوۡنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا ) (28/8)
    اس فرمان میں''لیکون'' کا لام ِتعلیل استعارہ تبعیہ کے طور پر معنی لامِ عاقبت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح کہ عداوت اور حزن کوجو التقاط کے بعد حاصل ہونے والا تھا اور لام عاقبت کا معنی ہے اسے التقاط کی علت غائیہ یعنی محبت اور تبنی جو آل فرعون کے ذہنوں میں قبل از التقاط ملحوظ تھی اور لا م تعلیل کا معنی ہے ،کیساتھ تشبیہ دی گئی اور وجہ شبہ
''ترتب علی الالتقاط ''
ہے کہ دونوں ہی التقاط پر مرتب ہیں ،پھر لام تعلیل کو جو ترتب علت غائیہ علی المعلول کے لیے موضوع ہے اور اس کا حق یہ تھا کہ علت غائیہ میں مستعمل ہو ،استعارہ تبعیہ کے طور پر عاقبت کے لیے استعمال کیاگیا۔

    اسی طرح
 (وَلَأُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوعِ النَّخْلِ)(20/71)
میں استعلاء مؤمنین کو ظرفیت شئ سے تشبیہ دیکر لفظ فی کو جو ظرفیت کے لیے موضوع تھا استعارہ تبعیہ کے طور پر مشبہ
 (اِسْتِعْلَاءُ الْمُؤمِنِیْنَ عَلَی جُذُوْعِ النَخْلِ )
کے لیے استعمال کیا گیا ۔

    اسی طرح
 ( اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ  )(2/5)
میں متقین کے
تَمَکُّنٌ مِنَ الْھِدَایَۃ
کو اِسْتِعْلَاءُ رَاکِب کے ساتھ تشبیہ دیکر لفظ ''عَلَی''کومشبہ کے لیے بطور استعارہ تبعیہ استعمال کیاگیا۔
Flag Counter