دِيوانِ حماسه |
کرتے ہوئے دیکھا ) اس میں لفظ اسد بطور استعارہ ، رجلِ شجاع کے لیے مستعمل ہے اور ان میں جامع''شجاعت ''ہے جو بالکل ظاہر ہے جسے ہر ایک سمجھ سکتاہے ۔ اس استعارہ کو استعارہ عامیہ اسی لیے کہتے ہیں کہ عام لوگ بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں ۔ نیزاسے ''اِستِعارَہ مُبْتَذَلَہ '' بھی کہتے ہیں ؛ کیونکہ اسے عوام و خواص سبھی استعمال کرتے ہیں۔ 2۔۔۔۔۔۔اِستِعارَہ خَاصِیَّہ:وہ استعارہ جس میں وجہ جامع ظاہر نہیں ہوتی۔ جیسے : ؎ کرتے ہوئے دیکھا )اس میں لفظ اسد بطور استعارہ ، رجلِ شجاع کے لیے مستعمل ہے اور ان میں جامع''شجاعت ''ہے جو بالکل ظاہر ہے جسے ہر ایک سمجھ سکتاہے ۔ اس استعارہ کو استعارہ عامیہ اسی لیے کہتے ہیں کہ عام لوگ بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں ۔ نیزاسے ''اِستِعارَہ مُبْتَذَلَہ '' بھی کہتے ہیں ؛ کیونکہ اسے عوام و خواص سبھی استعمال کرتے ہیں۔ 2۔۔۔۔۔۔اِستِعارَہ خَاصِیَّہ:وہ استعارہ جس میں وجہ جامع ظاہر نہیں ہوتی۔ جیسے : ؎
وَاِذَا احْتَبَی قُرْبُوْسَہ، بِعِنَانِہٖ عَلَکَ الشَکِیْمَ اِلَی انْصِرَافِ الزَائِرِ
شاعر اپنے گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتاہے کہ وہ اتنا مؤدب ہے کہ جب سوار (شاعر خود)اس سے اتر کر اس کی لگام کو زین پر ڈال کرچلاجاتاہے تواس کے لوٹنے تک وہ اپنے منہ کی کیل کو چبا تاہوا اپنی جگہ پر ٹھہرا رہتاہے۔شعر کا ترجمہ یہ ہے کہ جب وہ گھوڑا اپنی زین کے اگلے حصہ کا اپنی لگام سے احتباء کرلیتا ہے تو زائر(شاعر)کے لوٹنے تک وہ اپنے منہ میں پڑی کیل کوچباتا رہتاہے۔ اس میں شاعر نے لگام کی اس ہیئت کو جو لگام کے زین کے اگلے حصہ سے گھوڑے کے منہ تک پڑ ی ہونے سے حاصل ہے کپڑے کی اس ہیئت سے تشبیہ دی ہے جومُحْتَبِی کے گھٹنوں سے اس کی پیٹھ تک پڑا ہوتا ہے پھر ہیت مشبہ کے لیے لفظ احتباء کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے ۔ اسے ''استعارہ خاصیہ''اس لیے کہتے ہیں کہ اسے صرف خواص جانتے ہیں۔ نیز اسے ''استعارہ غَرِیْبَہ ''بھی کہتے ہیں ؛کیونکہ یہ عوام سے بعید ہے۔
(5)۔۔۔۔۔۔تقسیم استعارہ باعتبار طرفین اورجامع کے حسی اور عقلی ہونے کے:
طرفین اور جامع کے حسی اور عقلی ہونے کے اعتبار سے استعارے کی چھ قسمیں ہیں: 1۔۔۔۔۔۔ وہ استعارہ جس میں یہ تینوں حسی ہوں ۔جیسے فرمان رب العزت ہے:
(فَأَخْرَجَ لَہُمْ عِجْلاً) (20/88)
اس میں اس حیوان کو جسے اللہ تبارک وتعالی نے فرعونیوں کے زیورات سے پید ا فرمایا تھا گائے کے بچھڑے سے تشبیہ دی گئی اور بطور استعارہ لفظ ''عجل'' کو اس کے لیے استعمال کیاگیا۔ ان میں وجہ جامع ''شکل وخوار''ہے ۔اور یہ تینوں چیزیں (مستعار لہ، یعنی حیوان مخلوق، مستعار منہ یعنی بچھڑ ا،اور وجہ جامع یعنی شکل و خوار )حسی ہیں جن کا ادراک سمع وبصر سے ہوسکتاہے ۔ 2۔۔۔۔۔۔ وہ استعارہ جس میں طرفین حسی ہوں اور جامع عقلی ہو ۔ جیسے قران کریم میں ہے:
(وَ اٰیَۃٌ لَّہُمُ الَّیۡلُ ۚۖ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ ) (36 /37)
اس میں ''مکان لیل سے ازالہ ضوء'' کو ''بکری وغیرہ کے گوشت سے کھال کو زائل کرنے''سے تشبیہ دے کر لفظ ''نَسْلَخُ ''