Brailvi Books

دِيوانِ حماسه
16 - 324
کے قول مذکور میں لفظ ''اظفار''کا ذکر استعارہ تخییلیہ کے طور پر ہے۔

نکتہ:

    یہ لطائف ِ بلاغت سے ہے کہ شئ مستعار کا صراحۃً ذکر تک نہ کیا جائے اور محض اس کے لازم سے اس کی طرف اشارہ کردیا جائے ۔
 (3)۔۔۔۔۔۔تقسیم استعارہ باعتبار دخول جامع در مفہوم طرفین:
    جامع جسے تشبیہ کے باب میں ''وجہ شبہ''اور استعارے کے باب میں''وجہ جامع''کہتے ہیں یعنی وہ امر جس میں طرفین کے اشتراک کا قصد کیا گیا ہو اس کے مفہومِ طرفین میں داخل ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے استعارہ کی دو قسمیں ہیں :

    1۔۔۔۔۔۔ وہ استعارہ جس کے طرفین کے مفہوم میں وجہ جامع داخل ہو۔ جیسے اللہ رب العالمین کاارشاد ہے:
 (وَقَطَّعْنٰہُمْ فِی الۡاَرْضِ اُمَمًا) (7/168)
    اس فر مان عالیشان میں تقطیع کو تفریق کے لیے بطور استعارہ استعمال کیا گیااور ان میں وجہ جامع
''اِزَالَۃُ الْاِجْتِمَاع''
ہے جوطرفین (تقطیع و تفریق)دونوں کے مفہوم میں داخل ہے ؛ اس لیے کہ تقطیع کا معنی ہے :
اِزَالَۃُ الْاِتِّصَالِ بَیْنَ الْاَجْسَامِ الْمُتَّصِلَۃ
اور تفریق کا معنی ہے :
اِزَالَۃُ اِتِّصَاِل الْاَجْسَامِ الْمُتَفَرِّقَۃِ
اس سے ظاہر ہوا کہ
''اِزَالَۃُ الْاِجْتِمَاع''
دونوں کے مفہوم میں داخل ہے ۔

    اسی طرح حدیث شریف میں فرمایا:
 ((خَیْرُ النَاسِ رَجُلٌ یُمْسِکُ بِعِنَانِ فَرَسِہٖ کُلَّمَا سَمِعَ ھَیْعَۃً طَارَ اِلَیْھَا أَوْ رَجُلٌ فِیْ شَعْفَۃٍ فِیْ غُنَیْمَۃٍ لَہٗ یَعْبُدُ اللَّہَ حَتَّی یَأْ تِیَہُ الْمَوْتُ))
یعنی''لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جواپنے گھوڑے کی باگ تھامے اس طرح چوکس رہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کی پکار سنتے ہی اس کی طرف دوڑ پڑے یا وہ شخص ہے جو کسی پہاڑی پر اپنی چند بکریوں کو لے کر اقامت اختیار کرلے (ان ہی سے اپنے معاش کی تدبیر کرے)اور اللہ عز وجل کی عبادت میں مشغول رہے یہاں تک کہ وہ واصل بحق ہوجائے''۔

    اس حدیث پاک میں دوڑ نے کو طَیْرَان سے تشبیہ دیکر لفظ ''طَارَ'' کو دوڑنے کے لیے بطور استعارہ استعمال کیا گیا اور ان میں وجہ جامع
'' قَطْعُ الْمَسَافَۃِ بِسُرْعَۃ ''
ہے جو طرفین کے مفہوم میں داخل ہے اِلَّا یہ کہ یہ مستعار منہ میں بنسبت مستعارلہ، کے اقوی ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے کہ وصف جامع ،جانب ِمشبہ بہٖ میں اشد اور اقوی ہو۔

    2۔۔۔۔۔۔ وہ استعارہ جس کے طرفین کے مفہوم میں وجہ جامع داخل نہ ہو۔جیسے:
''رَأَیْتُ أَسَداً یَتَکَلَّمُ''
کہ اس میں لفظ اسد کو بطور استعارہ رجل شجاع کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور ان میں وجہ جامع ''شجاعت''ہے جو مستعارلہ، کے مفہوم میں تو داخل ہے مگر مستعار منہ کے مفہوم میں داخل نہیں؛اس لیے کہ اس کا مفہوم ''حیوان مفترس ''ہے ۔
    وجہ جامع کے ظہور اور عدم ظہورکے اعتبار سے بھی استعارہ کی دوقسمیں ہیں:

    1۔۔۔۔۔۔اِستِعارَہ عَامِیَّہ: وہ استعار ہ جس میں وجہ جامع ظاہر ہو۔ جیسے:
''رَأَیْتُ أَسَدًا یَرْمِيْ ''
 (میں نے شیر کو تیر اندازی
Flag Counter