دِيوانِ حماسه |
یعنی انذرھم الخ۔اس میں انذار(ایسی خبردینا جو غم و اندوہ کا باعث ہو )کو تبشیر کے معنی حقیقی (ایسی خبر دینا جو باعث ِ سرور وفرحت ہو)سے تشبیہ دیکر بطور استعارہ لفظ تبشیر کو انذار کے لیے استعمال کیا گیا جو اس کی ضد ہے۔ اور چونکہ یہ استعمال بطور تھکم ہے اس لیے یہ''استعارہ تھکمیہ '' کہلائے گا۔ اور اگر یہاں تبشیر کا استعمال انذار کے لیے بطور تملیح(ظرافت و خوش طبعی)ہو تو یہ ''استعارہ تملیحیہ'' کہلائے گا۔ اسی طرح یوں کہا جائے
''رَأَیْتُ أَسَداً ''
اور اس سے مراد بزدل شخص ہو ۔اب اگر بطور تھکم واستہزاء بز دل کو اسدکہاہے تو یہ استعارہ تھکمیہ ہے اوراگر بطور تلمیح و ظرافت کہا ہے تو یہ استعارہ تملیحیہ ہے۔
(2)۔۔۔۔۔۔تقسیم استعارہ باعتبارذکرِ لفظِ طرفین:
اس اعتبار سے بھی استعارہ کی دو قسمیں ہیں: 1۔۔۔۔۔۔اِستِعارَہ مُصَرَّحَہ:وہ استعارہ جس میں مستعار منہ (مشبہ بہ)کے لفظ کی تصریح ہو ۔جیسے شاعر کا قول ہے :
فَأَمْطَرَتْ لُؤْلُؤًا مِنْ نَرْجِسٍ وَسَقَتْ وَرْدًا وَعَضَّتْ عَلَی الْعُنَّابِ بِالْبَرَدِ
یعنی محبوبہ نے اپنی نرگسی خوبصورت آنکھوں سے موتی جیسے چمکدار آنسوں بہاکر اپنے گلابی گالوں کو سیراب کردیااور اولے کی طرح سفید دانتوں تلے اپنی انگلیوں کے عناب سے سرخ پوروں کو دبالیا ۔ اس شعر میں شاعر نے محبوبہ کے آنسوں ،آنکھوں ،گالوں،انگلیوں کے پوروں اور دانتوں کو بالترتیب موتی، نرگس کے پھول، گلاب کے پھول، عناب اور اولے سے تشبیہ دیکر مشبہ بہاکو بطور استعارہ ،مشبہات کے لیے استعمال کیا ہے۔چونکہ اس میں مستعار منھا کے الفاظ کی تصریح ہے اس لیے یہ سارے استعارے ''استعارہ مصرحہ ''کے قبیل سے ہیں۔ 2۔۔۔۔۔۔ اِستِعارَہ مَکْنِیَّہ:وہ استعارہ جس میں مستعارلہ کے لفظ کی تصریح ہو اور مستعار منہ کے لفظ کو حذف کردیاگیا ہواور اس کے لوازم میں سے کسی لازم کو ذکر کرکے اس کی طرف اشارہ کردیا گیا ہو۔جیسے اللہ تبارک وتعالی کا فرمان عظمت نشان ہے:
(وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ) (17/24)
اس میں''طائر''مستعار منہ ہے ذُلّ کے لیے مگر مستعار منہ کے لفظ کی تصریح نہیں کی گئی صرف مستعار لہ، کو ذکر کیا گیا ہے اور مستعار منہ کی طرف اس کے لوازم میں سے ایک لازم ''جناح''یعنی بازو کو ذکر فرماکر اشارہ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح شاعر کے قول:
''وَاِذَا الْمَنِیَّۃُ نَشَبَتْ أَظْفَارَھَا''
میں منیہ کو تشبیہ دی گئی درندے کے معنی (حیوان مفترس)سے لیکن ذکر ،صرف مشبہ اورمستعار لہ، یعنی منیہ کا کیا گیااور مشبہ بہ اور مستعار لہ کے لفظ (سبع)کو حذف کردیا گیااور اس کے لوازم میں سے ایک لازم ''اظفار''کو ذکر کرکے اس کی طرف اشارہ کردیا گیا۔ اس استعارے کو ''اِستِعارَہ بِالْکِنَایَۃ'' بھی کہتے ہیں۔اور مستعار منہ کے لوازم میں سے کسی لازم کو ذکر کرنا ''اِستِعارَہ تَخْیِیْلِیَّہ '' کہلاتا ہے۔ جسے ''اِستِعارَہ مُخَیَّلَہ '' اور '' تَخْیِیْل '' بھی کہتے ہیں چنانچہ آیت کریمہ میں لفظ ''جناح'' اور شاعر