Brailvi Books

دِيوانِ حماسه
14 - 324
فائدہ1:

     اس سے ظاہر ہوا کہ استعارے کی اصل ''تشبیہ''ہوتی ہے کہ معنی مجازی کو معنی حقیقی سے تشبیہ دیکر مشبہ بہ کے لفظ کو مشبہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

فائدہ2:

    استعار ے کے طور پر استعمال ہونے والے لفظ کو''مستعار''اور اس کے معنی حقیقی (جس کے لیے اسے وضع کیاگیاہے)کو ''مستعار منہ''اور معنی مجازی (جس میں وہ استعارۃ استعمال کیاجارہاہے)کو''مستعار لہ''اور وجہ شبہ کو''جامع''کہتے ہیں۔ نیز مستعار منہ اور مستعار لہ کو ''طرفینِ استعارہ''کہتے ہیں۔

اقسام استعارہ:

    مختلف اعتبارات سے استعارے کی مختلف تقسیمات ہیں۔ چنانچہ:
 (1)۔۔۔۔۔۔تقسیم استعارہ باعتبارِ اجتماع و عدمِ اجتماعِ طرفین:
     اس اعتبار سے استعارہ کی دوقسمیں ہیں:

    1۔۔۔۔۔۔ اِستِعارہ وِفَاقِیَّہ: وہ استعارہ جس کے طرفین کسی ایک شئ میں جمع ہو سکتے ہوں ۔جیسے اللہ عزوجل کے فرمان عالیشان :
 (اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحْیَیۡنٰہُ  ) (6/122)
میں ''احیاء''کا استعارہ ''ہدایۃ''کے لیے؛ کہ ہدایت
 (اَلدَلَالَۃُ عَلَی طَرِیْقٍ یُوْصِلُ اِلَی الْمَطْلُوْبِ)
کو اِحْیَاءکے حقیقی معنی
 (جَعْلُ الشَیْءِ حَیًّا)
سے تشبیہ دیکر لفظ اِحْیَاء کو ہدایت کے لیے استعمال کیا گیا۔

    چونکہ اس کے طرفین (احیاأاورہدایۃ)شئ واحد میں جمع ہوسکتے ہیں اس لیے یہ ''استعارہ وفاقیہ''ہے۔ اسے''وفاقیہ''اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں طرفین کے درمیان اتفاق ہوتاہے ۔

    2۔۔۔۔۔۔اِستِعارَہ عِنَادِیَّہ:وہ استعارہ جس کے طرفین شئ واحد میں مجتمع نہ ہو سکتے ہوں۔ جیسے: مذکورہ آیت کریمہ میں ''مَیْتٌ''کااستعارہ ''ضَالّ''کے لیے؛ کہ''حَیّ جَاہِل'' کو معنی ''مَیْت''سے تشبیہ دیکر لفظ ''مَیْت''کو''حَیّ جَاہِل''کے لیے استعمال کیا گیا ۔ 

    چونکہ اس کے طرفین شئ واحد میں جمع نہیں ہوسکتے اس لیے یہ''استعارہ عنادیہ ''ہے۔ اسے ''عنادیہ''کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے طرفین میں''عناداور منافات ''ہوتا ہے ۔

فائدہ:

    اِستِعارَہ تَھَکُّمِیَّہ اور اِستِعارَہ تَمْلِیْحِیَّہ اسی استعارہ عنادیہ ہی کے قبیل سے ہیں،اگر کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی کی ضد اور نقیض کے لیے بطور تھکم و استہزاء استعمال کیا جائے تو اسے ''استعارہ تھکمیہ '' کہتے ہیں ۔جیسے قران کریم میں فرمایا:
 (فَبَشِّرْہُمۡ
Flag Counter