Brailvi Books

دِيوانِ حماسه
13 - 324
استعارہ کی تحقیق:
    جاننا چاہے کہ لفظ مستعمل کی دو قسمیں ہیں : 

    1۔۔۔۔۔۔حقیقت:وہ لفظ جواصطلاح تخاطب کے اعتبارسے اپنے معنئ موضوع لہ، میں مستعمل ہو۔مثلاً اگر بحث لغت میں ہے تو لغۃً اپنے معنی موضوع لہ، میں مستعمل ہو۔
علی ہذا القیاس۔
جیسے:لفظ''صَلَاۃٌ''کااستعمال عرف لغت میں دعاکے لیے ۔

    2۔۔۔۔۔۔مجاز:وہ لفظ جو اصطلاحِ تخاطب کے اعتبارسے ایسے معنی میں مستعمل ہو جس کے لیے اسے وضع نہیں کیا گیا۔جیسے عرفِ لغت میں دُعَاء کا استعمال ارکان ِ مخصوصہ کے لیے؛ کہ لغت میں اسے اس معنی کے لیے وضع نہیں کیا گیا۔مگر اس کے لیے دو شرطیں ہیں :

    1۔۔۔۔۔۔لفظ کے معنئ حقیقی (موضوع لہ،)اور اس کے معنئ جازی (جس میں اسے استعمال کیا گیا ) کے درمیان کوئی علاقہ پایاجاتاہو۔جیسے:عرف ِ لغت میں لفظِ صَلَاۃ کا استعمال ارکان ِ مخصوصہ کے لیے مجاز ہے اور اس کے معنی حقیقی(دعا)اورمعنی مجازی میں علاقہ''جزئیت ''ہے؛ کہ دعا ارکان ِ مخصوصہ کا جزء ہے لہٰذا یہ
ذِکْرُ الْجُزْءِ وَاِرَادَۃُ الْکُلِّ
کے قبیل سے ہوگا۔

    2۔۔۔۔۔۔ایسا قرینہ پایاجاتاہوجولفظ سے اس کے معنی حقیقی کے مراد ہونے سے مانع ہو۔ جیسے :
 (اِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا) (4/103)
اس میں لفظ ''موقوتاً''قرینہ ہے جو صلاۃ کے حقیقی معنی (دعا)کے مراد ہونے سے مانع ہے؛کیونکہ دعا وقت باندھا ہوا فرض نہیں بلکہ ارکانِ مخصوصہ کی ادائیگی وقت باندھا ہوا فرض ہے ۔

    پھرمجاز کی دو قسمیں ہیں: 

    1۔۔۔۔۔۔مجاز مرسل :وہ مجاز جس کے معنی حقیقی (جس کے لیے اسے وضع کیا گیاہے)اورمعنی مجازی(جس میں اسے استعمال کیا جارہاہے)کے درمیان علاقہ ، مشابہت کے علاوہ کوئی اور ہو۔ جیسے: کلیت،جزئیت ،سببت اور مسببیت وغیرہا۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے:
 (یَجْعَلُونَ أَصَابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِم مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ) (2/19)
یہاں ''أصابع ''سے مراد''أنامل''ہیں از قبیل
ذِکْرُ الْکُلِّ وَاِرَادَۃُ الْجُزْءِ؛
اس لیے کہ پوری انگلیوں کے کانوں میں داخل کرنے کا تعذ ر معنی حقیقی کے ارادے سے مانع ہے ۔

    2۔۔۔۔۔۔ استعارہ :وہ مجاز جس کے معنی حقیقی و معنی مجازی کے ما بین علاقہ ''مشابہت ''ہو۔ جیسے:
فُلاَنٌ یَتَکَلَّمُ بِالدُرَرِ
اس میں لفظ''دُرَر''استعارہ ہے جس کا حقیقی معنی''لآلی''یعنی موتی ہے اور مجازی معنی جس میں یہاں اسے استعمال کیاگیاہے ''کلماتِ فصیحہ''ہے اور ان دونوں معانی کے مابین علاقہ مشابہت کا ہے کہ کلماتِ فصیحہ ''حسن'' میں موتیوں کی طرح ہیں۔
Flag Counter