Brailvi Books

دِيوانِ حماسه
11 - 324
شعر کا اصطلاحی معنی:
     کَلَامٌ مُقَفًّی مَوْزُوْنٌ عَلٰی سَبِیْلِ الْقَصْدِ
یعنی''وہ کلام جسے قصداً موزون ومقفّٰی بنایا گیا ہو۔
فائدہ:
     قصدًا کی قید سے اللہ تبارک وتعالی کا یہ فرمان عالی :
 (الَّذِیْ أَنقَضَ ظَہْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ)(94/3،4)
تعریف شعر سے خارج ہو گیا ؛کیونکہ اگر چہ یہ کلام موزون ومقفیٰ ہے مگر اس کا موزون
لانا علی سبیل القصد
نہیں ہے۔
 (التعریفات للجرجانی، ص 91،92، دارالمنار)
طبقات شعراء:
     شعراءِ عرب کے چار طبقات بیان کئے جاتے ہیں :

    1۔۔۔۔۔۔جاہلین:وہ شعراء جنہوں نے زمانہ اسلام پایا ہی نہیں یا پایامگر اسلام کے بارے میں کوئی قابل ذکر بات نہیں کی۔ جیسے امرؤالقیس، زھیر اورامیہ بن ابی الصلت۔

    2 ۔۔۔۔۔۔مخضرمین:وہ شعراء جو اپنے اشعار کی وجہ سے زمانہ اسلام اور زمانہ ئجاہلیت دونو ں میں مشہور ہوئے۔ جیسے حسان بن ثابت اور خنساء۔

    3۔۔۔۔۔۔ اسلامیین:وہ شعراء جوزمانہ اسلام میں پیداہوئے ۔ جیسے اموی دورکے شعراء۔

    4۔۔۔۔۔۔ مولّدین:وہ شعراء جن کی زبان میں فطری طور پرشاعری کا ملکہ نہیں تھا لیکن محنت اور جستجوکے ذریعے حصول کی کوشش کی ۔(تاریخ الادب العربی)

ادب عربی کی شرعی حیثیت:

    علامہ شامی علیہ الرحمۃ شعرا ء کے چھ طبقات:(1)جاھلین(2)مخضرمین(3)اسلامیین (4)مولدین(5)محدثین(6)متأخرین شمارکرکے فرماتے ہیں:
والثلاثۃ الاُوَل ھم ما ھم فی البلاغۃ والجزالۃ، ومعرفۃ شعرھم روایۃ ودرایۃ عند فقہاء الاسلام فرض کفایۃ الخ
یعنی ''پہلے تین طبقے بلاغت و خوش بیانی میں اعلیٰ درجے پر فائز ہیں اور فقہاء اسلام کے نزدیک ان کے اشعارکا روایۃًاور درایۃ ً جاننافرض کفایہ ہے؛کیونکہ ان سے وہ عربی قواعد ثابت ہوتے ہیں جن سے اُس کتاب اور سنت کو جانا جاتا ہے جن پر اُن احکام کی معرفت موقوف ہے جن سے حلال کو حرام سے ممتاز کیا جاتا ہے ،اِن شعراء کے کلام کے معانی میں اگرچہ خطا ممکن ہے لیکن الفاظ اور حروف کی ترکیب میں خطا ممکن نہیں ہے۔
 (ردالمحتار، المقدمہ،ج1، ص136، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
عربی شاعری کے ادوار:
    1۔۔۔۔۔۔ زمانہ جاہلیت: 500ء سے 622 ء تک کا زمانہ ''دورِجاہلیت ''کے نام سے موسوم کیا گیاہے ۔اس دورکے مشہور شعراء یہ
Flag Counter