مجھے شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا فرمان ’’ صدائے مدینہ دکھائے مدینہ‘‘ بھی سنایا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ میرا ذہن بن گیا اور حاضری ٔمدینہ کی امید پر اگلے ہی دن میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔صدائے مدینہ کیا لگانی شروع کی مجھ پر تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسلَّم کا کرم ہو گیا۔میرے تو وارے ہی نیارے ہو گئے، قسمت کا ستارا یوں چمکا کہ اسی سال مجھے بارگاہِ مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیہ وَاٰلہٖ وَسلَّم کی حاضری کا شرف حاصل ہو گیا۔ کرم بالائے کرم یہ کہ صدائے مدینہ کی برکت سے میرے بڑے بھائی کو بھی حج کی سعادت نصیب ہو گئی،دورانِ حج شیخِ طریقت، امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سے بیعت ہونے کا شرف بھی مل گیا۔شاید یہ مدینے شریف کی حاضری اور ایک ولیٔ کامل سے بیعت کی برکت تھی کہ میرے بھائی ’’محمد بشیر احمد عطاری ‘‘ جو پہلے نمازوں کی ادائیگی میں سستی کا شکار تھے لیکن اب تمام گناہوں سے توبہ کر کے نیکیوں کی جانب مائل ہونے لگے۔ باجماعت نماز کا اہتمام کرنے لگے ۔ داڑھی شریف کی بھی نیّت کر لی ۔ حج سے واپسی آنے کے کم وبیش دو ماہ بعدجبکہ ایک عزیز کی شادی میں شریک تھے ، بارات آنے ہی والی تھی لیکن جونہی نماز کا وقت ہوا سب کو بآوازِ بلند نماز کی دعوت دی اور مسجد کی جانب چل دیے ۔ جب وضو کے لئے وضو خانے پر پہنچے تو اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے گر پڑے ۔