Brailvi Books

چمکدار کفن
5 - 32
کے بعد تمام افراد سو گئے ۔25 نومبر2007 ء فجر کے بعد اچانک والدہ کی آواز کانوں میں پڑی کہ جلدی آؤ،جلدی آؤ تمہارے ابو کوئی جواب نہیں دے رہے۔یہ ہوش رُبا آواز سن کر پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی،بے اختیار دوڑتے ہوئے والدصاحب کے کمرے میں پہنچے تو ابو جان چہرہ قبلہ رو کیے ہمیشہ کے لیے سو چکے تھے ۔دو اسلامی بھائیوں کے ساتھ مل کر بڑے بھائی نے والدصاحب کو غسل دیا۔مدینہ شریف سے آیا ہوا کفن اور پیرومرشد کے کچھ تبرکات بھی والد صاحب کو نصیب ہوئے۔اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ مبلّغِ دعوتِ اسلامی ورُکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ، حاجی ابو رضا محمد علی عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ باپا کے مدنی وصیّت نامہ کے مطابق قبر پر اذان و تلقین کے بعد نعت خوانی اور دُرودو سلام کا سلسلہ رہا۔ والدصاحب کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ہم تمام اہل خانہ باب المدینہ( کراچی) منتقل ہو گئے۔2008 ء میں ہونے والی مُون سون کی شدید بارشوں کے باعث دیگر کئی قبروں کے ساتھ ساتھ والد صاحب کی قبر بھی مکمل طور پر بیٹھ گئی۔اطّلاع ملنے پر ہم ہاتھوں ہاتھ سکھر پہنچ گئے۔ماہِ رمضان سے چند روز قبل سکھر میں اہلسنّت وجماعت کے ایک مفتی صاحب دَامَت بَرَکَاتُہُمُ العَالِیہ کی خدمت میں حاضر ہو کرقبرکے بارے میں بتایا اور شرعی حکم دریافت کیا۔مفتی صاحب نے فرمایا کہ قبر کھول کر مٹی نکال لی جائے لیکن کفن کو نہ چھیڑا جائے۔