میں بھی والد صاحب کے ساتھ انہی عاشقانِ رسول میں شامل ہو گیا۔جبچل مدینہ کا قافلہ ائرپورٹ پہنچاتو کچھ ہی دیر بعد گھر سے فون آگیا کہ والدہ کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے آپ فوراً واپس آ جائیں۔ چنانچہ ہم نے بلاتاخیر گھرکا رخ کیا گھر میں داخل ہوتے ہی میں والدہ کے پاس گھبرایا ہواپہنچا سب اہل خانہ ان کے پاس جمع تھے میں نے والدہ سے پوچھا کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ امی جان نے فرمایا میری فکر نہ کرو یہ بتاؤ کہ امیرِ اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہروانہ ہو گئے ہیں یا نہیں ؟ میں نے عرض کی ابھی نہیں توکہنے لگیں میری فکر چھوڑو ،جا کر چل مدینہ کے قافلے کی برکتیں لوٹو اور پیرو مرشد کی دعائیں لو۔چنانچہ والدہ کے حکم پر میں دوبارہ ائرپورٹ پہنچ گیا جب امیرِ اہلسنّت دَامَت بَرَکاتُہُمُ العَالِیَہائر پورٹ میں داخل ہوگئے تو میں گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچا تو سبھی کے چہروں سے پریشانی کے آثار نمایاں تھے مجھے بتایا گیا کہ تمہارے جانے کے بعد اچانک والدہ کی طبیعت پہلے سے بھی زیادہ بگڑ گئی تھی۔میں فوراً والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا اورپیشانی کوبوسہ دیتے ہوئے خیریت معلوم کی توصبر و ہمّت کا اظہار کرتے ہوئے فرمانے لگیں ’’ میں ٹھیک ہوں فکرمند ہونے کی کوئی بات نہیں۔‘‘ والدہ کے یہ جملے سن کر مجھے کافی تسلی ہوئی ،میں ان کے قریب ہی بیٹھ گیا۔چند ہی لمحوں بعد اچانک والدہ نے بلند آواز سے کَلِمَۂ طَیِّبَہ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ پڑھا اور آن کی