ومرشد کی زیارت کی تڑپ دل میں لیے اس راستے پر انتظار کرتے رہے جدھر سے امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے گزرنا تھا ۔ بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور نمازِ فجر سے کچھ قبل امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شیخوپورہ تشریف آوری کے نعرے بلند ہونے لگے۔نمازِ فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد اشراق و چاشت امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے ساتھ ادا کیں اوراپنے پیر و مرشد کی زیارت و ملاقات کا شرف پا کر گھر لوٹے ۔ان کا چہرہ خوشی کے مارے گلاب کے پھول کی طرح کِھلا ہوا تھا،کچھ دن بعد والد صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی،انہیں قریبی اسپتال میں داخل کر وادیا گیا۔بالآخر طویل علالت کے بعد 11 رمضان المبارک 1427 ھ بمطابق 5 اکتوبر 2006 ء میں لاہور کے اسپتال میں انتقال کر گئے۔والد صاحب کی جدائی کے صدمے سے میری حالت عجیب ہو گئی۔آنکھوں سے اشکوں کا دھا را بہہ نکلا والد صاحب کو جب گھر لایا گیا تو گھر والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی،سب زار و قطار رونے لگے مگر میں نے ہمّت کی اور آگے بڑھ کر گھر والوں کو صبرکا دامن تھامنے اور چیخ و پکار سے بازرہنے کی تر غیب دلائی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّ دعوتِ اسلامی کے مشکبا ر مدنی ماحول سے وابستگی کی برکت تھی کہ اس دوران خود بھی نمازوں کی پابندی کی اور گھر والوں کو بھی نمازیں پڑھنے کی ترغیب دلاتا رہا۔نماز عشا و تراویح ادا کرنے کے بعد میں قراٰن پاک کی