بھی ختم ہوچکی تھی،سامنے دیکھا تو حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ منبر شریف پر ہی تشریف فرماہیں گویا کہ وہاں سے اُترے ہی نہیں ۔میں چپ رہا اور کسی سے اس بات کا ذکر نہ کیا مگر مجھے میری چابیاں نہیں مل رہی تھیں۔ پھر ایک مُدّت بعد مجھے سفر درپیش ہوا ۔ بغداد سے 14 دن تک چلنے کے بعد ہمارا قافِلہ ایک جنگل میں اُترا۔وہاں قریب ہی ایک نَہَر تھی۔میں لوگوں کی نگاہوں سے دُور جنگل میں قضائے حاجت کے لئے گیا تو یہ جنگل مجھے اُسی جنگل سے اورنَہَراُسی نَہَر سے مشابہ محسوس ہوئی ۔ جب میں نے آس پاس دیکھا تو قریب ہی ایک درخت پر میری گمشدہ چابیاں لٹکی ہوئی مل گئیں۔پھر جب میں بغداد لَوٹا تو غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں حاضِر ہوا تاکہ سارا ماجرا عرض کر سکوں مگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے میرے بولنے سے پہلے ہی کان میں فرمایا: '' اے ابو المعالی! میری زندگی میں کسی سے یہ بات ذکر نہ کرنا۔'' میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں مصروف ہوگیا حتّٰی کہ آپ وِصال فرما گئے ۔