دوستوں کی صُحبت کی نُحُوست نے مجھے چرس اور ہيروئن جیسے مُہلِک نشے کا عادی بناديا ،آہ! میں سولہ سال تک نشے کا عادی رہا۔یہ بتاتے ہوئے ان کی آواز بھرا گئی،مگر بیان جاری رکھتے ہوئے کہا: میری بُری عادتوں سے بیزارہوکر مجھے گھر سے نکال دیا گیا۔ میں فُٹ پاتھ پر سوتا اورکچرے کے ڈھیر سے اٹھا کر یا مانگ کر کھا تا۔آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ میں نے ایک ہی لباس میں سولہ سال گزار دئیے!میری کیفیت بالکل ایک پاگل کی طرح ہوچکی تھی!
ایک مقدّس رات کا قصّہ ہے، غالِباً وہ رَمَضانُ المُبارَک کی ستائیسویں شب تھی۔ میں بدنصیب اسی گندی حالت میں بدمست ایک گلی کے کونے میں کچرا کونڈی کے پاس لیٹا ہوا تھاکہ سلام کی آواز پر چونکا!جب آنکھیں ملتے ہوئے دیکھاتو میرے سامنے سبز سبز عمامہ سجائے دواسلامی بھائی کھڑے مُسکرارہے تھے انہوں نے بڑی مَحَبَّت سے میرا نام پوچھا،شاید زندگی میں پہلی بار کسی نے اتنی مَحَبَّت سے مجھے مُخاطب کیا تھا۔ پھر انفِرادی کوشِش کرتے ہوئے اُنہوں نے شبِ قدر کی عظمت سے مُتَعَلِّق بڑی پیاری پیاری باتیں بتائیں۔ میں ان