$ کر سکتیں اور پھر ان کو دشمن کی دَستبرد سے بچانے کے لیے بھی انہیں بسا اوقات مختلف مسائل سے دوچار ہونا پڑتا، اس لیے وہ ان کو زندہ رکھنا اپنے لیے وبالِ جان سمجھتے ۔
$ ان کی جاہِلانہ نَخْوَت (گھمنڈ)بھی اس کا ایک سَبَب تھی، وہ کسی کو اپنا داماد بنانا اپنی توہین سمجھتے تھے اس سے بچنے کا یہی آسان طریقہ تھا کہ نہ بچی زندہ ہو نہ اسے بیاہا جائے اور نہ کوئی ان کا داماد بنے۔
وجوہات اگرچہ مختلف اورمتعددتھیں لیکن یہ ظالمانہ رسم عرب کے جاہلی معاشرے میں اپنے پنجے گاڑ چکی تھی، عام طور پر اسے کوئی معیوب چیز یا ظلم بھی نہ سمجھا جاتا۔ باپ اپنی اولاد کا مالکِ کل ہوتا، چاہے اسے زندہ رکھےیا قتل کر دے، کسی کو اس پر اِعْتِراض کا کوئی حَق حاصِل نہیں تھا۔بلکہ ایک ہی شخص اپنی کئی کئی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتا اور اسے ذرہ بھر افسوس نہ ہوتا۔جیسا کہ امیر المومنین حضرت سَیِّدُنا عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سَیِّدُنا قیس بن عاصم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ایک بار سركار صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم كى بارگاہ مىں حاضر ہوئے تو (زمانۂ جاہلیت میں بیٹیوں کے زندہ درگور کرنے کے فعل پر شرمسار ہوتے ہوئے) عرض كی: مىں نے زمانۂ جاہلىت مىں آٹھ بىٹىوں كو زندہ دَفْن كىا (کیا میرا یہ گناہ