زِنْدَہ زمىن مىں دفن كردے۔ جیساکہ پارہ۱۴ سورۃُ النحل کی آیت نمبر ۵۸اور ۵۹ میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾ یَتَوٰرٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحْکُمُوۡنَ ﴿۵۹﴾
ترجمۂ كنز الايمان:اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصّہ کھاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس بشارت کی برائی کے سبب کیا اسے ذلّت کے ساتھ رکھے گا يا اسے مٹی میں دبا دیگا۔ارے بہت ہی برا حکم لگاتے ہیں۔
زندہ دفن کرنے کی قبیح رسم کا آغاز
عہدِ جاہلیت میں کئی قبیح اور سنگدلانہ رسمیں رائج تھیں جنہیں لوگ بڑے فخر سے انجام دیا کرتے تھے، مثلاً ایک رسم یہ بھی تھی کہ بعض لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیا کرتے اور اس پر غمزدہ یا پشیمان ہونے کے بجائے فخر کرتے۔ اس ظالمانہ حرکت کے آغاز کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ایک بار ربیعہ قبیلہ پر ان کے دُشمنوں نے شب خُون مارا اور وہ رَبیعہ کے سردار کی بیٹی کو اُٹھا کر