Brailvi Books

بیٹی کی پرورش
23 - 64
 ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ آپ کی بیٹی کا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی برگزیدہ و نیک خواتین سے رُوحانی تعلق قائم ہوجائے گا اور دوسرا ان نیک ہستیوں سے موسوم ہونے کی برکت سے اسکی زِنْدَگی پر مَدَنی اثرات مُرتّب ہوں گے۔ اگر آپ نے اپنی بیٹی کا نام رکھتے وقت ان مَدَنی پھولوں کو مَدّنظر نہیں رکھا تھا تو پریشان مت ہوں بلکہ فوراً ان کا نام تبدیل کر دیجئے۔ چنانچہ، 
اُمُّ المومنين حضرت سَيِّدَتُنا عائشہ صِدّيقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  سے مروی ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بُرے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے۔(1) اور حضرت سَیِّدُنا ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما  سے مروی ہے کہ اُمُّ الْمُومنین حضرت سیِّدَتُنا  جُویریہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا  کا نام پہلے برّہ (نیکی) تھا،آپ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بدل کر جُویریہ رکھ دیا ۔(2) نام رکھنے میں حضرت سَیِّدُنا اَبُو زَكَريا یحییٰ بن شَرف نَوَوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  کا عطا کردہ یہ مدنی پھول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بچے کا نام اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے کسی برگزیدہ بندے (مثلاً پیر و مرشد وغیرہ) سے رکھوانا مستحب ہے اور جس دن بچہ پیداہو اسی دن نام رکھنا بھی جائز ہے۔(3)

(1) ترمذی ، کتاب الآداب، باب ماجاء فی تغییر الاسماء، ۴/ ۳۸۲، حدیث:۲۸۴۸

(2)  مسلم، کتاب الادب، باب استحباب تغییر الاسم القبیح ، ص۱۱۸۲، حدیث:۲۱۴۰

(3) شرح صحيح مسلم،کتاب الادب ،باب استحباب تحنیک المولود، الجزء الرابع عشر، ۷/ ۱۲۴